شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ۖ وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۗ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
وہ رمضان (263) کا مہینہ تھا جس میں قرآن نازل ہوا، جو لوگوں کو راہ راست دکھاتا ہے، اور جس میں ہدایت کے لیے اور حق و باطل کے درمیان تفریق کرنے کے لیے نشانیاں ہیں، پس جو کوئی اس مہینہ کو پائے وہ روزہ (264) رکھے اور جو کوئی مریض ہو یا سفر میں تو اتنے دن گن کر بعد میں روزے رکھ لے، اللہ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے تمہارے لیے تنگی کو اللہ پسند نہیں کرتا، اور تاکہ تم روزے کی گنتی پوری کرلو، اور روزے پوری کرلینے کی توفیق و ہدایت پر تکبیر کہو (265) اور اللہ کا شکر ادا کرو
فہم القرآن : ربط کلام : روزہ اور قرآن مجید کا باہمی تعلق بیان کرتے ہوئے روزے داروں کو تسلی دی جارہی ہے کہ روزے تمہیں تنگ کرنے کے لیے فرض نہیں کیے بلکہ ان سے تقویٰ، خدا کی کبریائی کا تصور اور شکریہ کا جذبہ پیدا کرنا مقصود ہے۔ ماہ رمضان کی عظمت وفضیلت کی سب سے بڑی دلیل رب جلیل نے یہ دی ہے کہ اس مہینے میں قرآن نازل کیا گیا ہے۔ جس میں قوموں کی رشدو ہدایت اور ان کی اصلاح اور فلاح کا نہایت ہی جامع پروگرام دیا گیا ہے۔ یہ ہدایت اتنی واضح اور اس کے دلائل اس قدر روشن ہیں کہ اس سے بہتر راہنمائی کوئی اور نہیں کرسکتا اور نہ ہی کسی صحیح فلسفۂ حیات کی تائید کے لیے اس سے قوی دلائل پیش کیے جاسکتے ہیں۔ جونہی قرآن مجید کے دلائل فکری اور عملی میدان میں پیش کیے جاتے ہیں تو کوئی بھی ذی شعور اور سلیم الفطرت انسان قرآنی ہدایت اور اس کے دلائل کے سامنے سرجھکائے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس لیے قرآن کو ” اَلْفُرْقَانَ“ بھی کہا گیا ہے۔ یعنی ایسی کتاب جو حق وباطل اور کھرے کھوٹے میں امتیاز پیدا کردے۔ قرآن مجید سے مستفید ہونے کے لیے اس کی پہلی آیت میں تقو ٰی کو شرط لازم قرار دیا گیا ہے۔ اس تقو ٰی کے حصول کے لیے رمضان کے روزے مقرر کیے گئے ہیں۔ لہٰذا روزے کا مقصد تقو ٰی کا حصول ہے۔ تقویٰ کا مفہوم یہ ہے کہ انسان ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور گناہوں سے بچے۔ اس لحاظ سے رمضان اور قرآن کا آپس میں چولی دامن کا تعلق ہے۔ سلسلۂ کلام کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا جارہا ہے کہ تمہیں اس غلطی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کہ تمہارے رب نے پہلے حکم میں مریضوں اور مسافروں کو روزہ نہ رکھنے کی جو رخصت عنایت فرمائی تھی۔ اس فرمان میں وہ رعایت واپس لے لی گئی ہے۔ یہاں پھر مریضوں اور مسافروں کے لیے من وعن وہی الفاظ دہرا کر اس رعایت کو بحال رکھا گیا ہے تاکہ انہیں مزید اطمینان ہو کہ اگر ہم تکلیف میں مبتلا ہوئے ہیں تو ہمیں آسانی بھی دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ نرمی اور آسانی کرتا ہے۔ اسی لیے اس نے لوگوں کی مجبوریوں اور معذوریوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے ضابطوں میں نرمی اور ترمیم فرمائی ہے۔ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان کا عملی پہلو سامنے رکھیں تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح نمایاں ہوجائے گی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو تکلیف مالا یطاق سے بچانے کے لیے اسلام کے تمام احکام اور مسائل میں نرمی اور آسانی کے پہلو کو سامنے رکھا ہے۔ نماز ہی کو لے لیجیے جو ہر بالغ مسلمان پر فرض ہے لیکن اس میں کتنی رعائتیں دی گئی ہیں تاکہ آدمی فرض ادا کرنا چاہے تو کوئی رکاوٹ بھی اس کے سامنے حائل نہ ہوسکے گی۔ کھڑا ہو کر نہیں پڑھ سکتا تو بیٹھ کر نماز ادا کرلے۔ اگر بیٹھنا دشوار معلوم ہو تو لیٹ کر ادا کرسکتا ہے۔ لیٹنے کی حالت میں چہرہ قبلہ کی جانب نہیں ہوسکتا تو ارشاد ہوتا ہے کہ میرے بندے ! تجھے افسردہ ہونے کی ضرورت نہیں تیرا چہرہ جس جانب بھی ہوگا۔ میری نظر کرم اسی طرف اس کے استقبال میں ہوگی۔ اسی طرح حج کے مناسک کو لے لیجیے ایک دو کو چھوڑ کر معذوری کی حالت میں باقی تمام مناسک کوئی دوسرا ادا کرے تو یہ ادائیگی معذور آدمی کی طرف سے ہی تصور ہوگی۔ یہاں تک کہ اگر کسی پر حج فرض ہو لیکن وہ جسمانی یا اور کسی شرعی مجبوری کی وجہ سے بیت اللہ میں حاضری نہیں دے سکتا تو وہ حج بدل کے ذریعے یہ فریضہ سرانجام دے سکتا ہے۔ یہ آسانیاں اور مہربانیاں اس لیے ہیں تاکہ مسلمان حتی المقدور خدا کے احکام پورے کرسکیں۔ فرائض کی ادائیگی کا یہ احساس اس وقت تک پیدا نہیں ہوسکتا جب تک اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا تصور دل ودماغ میں جاگزیں نہ ہوجائے۔ اس لیے روزے کے مسائل کے بیان میں اللہ تعالیٰ اپنی کبریائی کا احساس یاد دلا رہے ہیں کہ جس نے خدا کی کبریائی کا تصور پختہ کرلیا اس کے لیے روزہ رکھنا اور اپنے رب کے احکامات پر عمل کرنا آسان ہوجائے گا۔ خدا کے احکامات کی بجاآوری ہی حقیقی شکریہ ہے اور شکر گزار بندے ہی ہدایت پایا کرتے ہیں۔ مسائل : 1۔ قرآن مجید رمضان المبارک میں نازل ہوا۔ 2۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے ہدایت ہے، اس میں ہدایت کے بڑے بڑے دلائل ہیں۔ 3۔ یہ حق و باطل میں امتیاز کرنے والا ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے ساتھ سختی کرنے کے بجائے نرمی اختیار کرتا ہے۔ 5۔ ہدایت نصیب ہونے پر اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالی اپنے بندوں کے ساتھ سختی نہیں نرمی کرتا ہے۔ 1-(البقرۃ: 185) 2-(البقرۃ: 186) 3-( اعلی: 7)