وَجَاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ
اور شہر والے خوشیاں مناتے ہوئے آئے۔
فہم القرآن : (آیت 67 سے 71) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اوباشوں کا مہمانوں کو دیکھ کر حضرت لوط (علیہ السلام) کے گھر پر یلغار کرنا۔ بڑے بڑے مفسرین نے تاریخ کے حوالے سے یہ بات تحریر فرمائی ہے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کے پاس آنے والے ملائکہ انتہائی خوبصورت لڑکوں کی شکل میں تشریف لائے۔ کیونکہ لوط (علیہ السلام) کی قوم کے لوگ ہم جنسی کے مرض کا شکار تھے یہ لوگ اپنی بیویوں کے ساتھ ازدواجی تعلقات رکھنے اور نوجوان عورتوں سے شادی کرنے کے بجائے لڑکوں کے ساتھ بدکاری کرنے کو ترجیح دیتے تھے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے انہیں بہت سمجھایا کہ دنیا میں تم پہلے لوگ ہوجو اس جرم میں ملوث ہو۔ اسی سبب جب انہیں معلوم ہوا کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کے پاس خوبصورت مہمان آئے ہیں تو وہ مسٹنڈوں کی طرح اچھلتے کودتے حضرت لوط (علیہ السلام) کے گھر پہنچے حضرت لوط (علیہ السلام) اس صورت حال پر اس قدر پریشان ہوئے کہ بے ساختہ کہنے لگے کہ آج کا دن بڑا مشکل دن ہے۔ پھر انہیں سمجھایا ” اے میری قوم کے لوگو! یہ میری بیٹیاں ہیں جو تمہارے لیے جائز ہیں بس اللہ سے ڈرو۔ میرے مہمانوں میں مجھے رسوا نہ کرو۔ جب دیکھا کہ یہ لوگ باز نہیں آرہے تو فرمایا کیا تم میں کوئی بھی شریف آدمی نہیں ہے جو تمہیں اس کام سے منع کرے وہ کہنے لگے تو جانتا ہے کہ ہمیں تیری بیٹیوں میں کوئی دلچسپی نہیں۔ ہم جو کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اسے جانتا ہے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) انتہائی غمزدہ ہو کر ٹھنڈی آہ بھر کر فرماتے ہیں کہ اے کاش! میں تمہارا مقابلہ کرنے کے قابل ہوتا یا پھر میں مضبوط سہارے کی پناہ لیتا۔ اس پر ملائکہ نے حضرت لوط (علیہ السلام) کو تسلی دی کہ آپ فکر نہ کریں یہ لوگ آپ تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ بس آپ نکلنے کی جلد تیاری کریں۔ انہیں صبح کے وقت عذاب آلے گا اور صبح ہونے ہی والی ہے۔ ( ھود : 77۔81) حضرت لوط (علیہ السلام) کے بار بار سمجھانے کے باوجود وہ آپ کا دروازہ توڑنے کی پے در پے کوشش کرتے رہے جب دروازہ نہ کھلا تو دیواریں پھلانگ کر اندر آئے اور گستاخانہ لہجے میں کہا کہ کیا ہم نے آپ کو بارہا نہیں کہا کہ آپ ساری دنیا کا ٹھیکہ لینے کی کوشش نہ کیا کریں؟ اس پر حضرت لوط (علیہ السلام) نے فرمایا کہ یہ میری بیٹیاں حاضر ہیں۔ (الاعراف : 81)کی رو سے ان بدکاروں کی بیویوں کے لیے لوط (علیہ السلام) نے میری بیٹیوں کے الفاظ استعمال کیے۔ النساء کا لفظ قرآن میں بیویوں کے لیے بھی استعمال کیا گیا ہے۔ (النساء :4) (ا لطلاق :1) بیٹیاں حاضر ہونے سے مراد نعوذ باللہ یہ نہیں کہ تم ان سے بدکاری کرسکتے ہو۔ اس جملے کا مقصد یہ ہے کہ تم جائز طریقہ اختیار کرکے ان سے نکاح کرسکتے ہو یہ بھی حقیقت ہے کہ نبی اپنی قوم کا روحانی باپ ہوتا ہے۔ اس لیے انہوں نے قوم کی بیٹیوں کو اپنی بیٹیاں قرار دیا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) نے انہیں شرم دلانے کے لیے یہ الفاظ کہے تھے لیکن دل نہیں مانتا کہ حضرت لوط (علیہ السلام) نے اس ارادے سے یہ الفاظ استعمال کیے ہوں۔ کیونکہ عام شخص تو یہ الفاظ کہہ سکتا ہے مگر پیغمبر بے انتہا غیور ہوا کرتے ہیں جن سے ایسے الفاظ کے بارے میں سوچا نہیں جا سکتا۔ (عَنِ الْمُغِیرَۃِ قَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَۃَ لَوْ رَأَیْتُ رَجُلاً مَعَ امْرَأَتِی لَضَرَبْتُہُ بالسَّیْفِ غَیْرَ مُصْفِحٍ، فَقَال النَّبِیُّ (ﷺ) أَتَعْجَبُونَ مِنْ غَیْرَۃِ سَعْدٍ، لأَنَا أَغْیَرُ مِنْہُ وَاللَّہُ أَغْیَرُ مِنِّی)[ رواہ البخاری : باب الغیرۃ] ” حضرت مغیرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعد بن عبادہ (رض) نے کہا کہ میں کسی آدمی کو اپنی عورت کے پاس پاؤں‘ میں تو اسے قتل کردوں گا اور تلوار الٹی نہیں ماروں گا۔ جب نبی گرامی (ﷺ) کو اس بات کی خبر ملی‘ تو آپ نے فرمایا تم سعد کی غیرت پر تعجب کررہے ہو۔ اللہ کی قسم! میں اس سے بھی زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ مجھ سے زیادہ غیرت والا ہے۔“ مسائل: 1۔ مہمانوں کی عزت و آبرو کا خیال رکھنا معاشرے کے لیے لازم ہے۔ تفسیر بالقرآن: انسانوں کو ہر حال میں اللہ سے ڈرنا چاہیے : 1۔ اللہ سے ڈرو اور مجھے رسوا نہ کرو۔ (الحجر :69) 2۔ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جس طرح ڈرنے کا حق ہے۔ (آل عمران :102) 3۔ اللہ سے ڈرو اور اطاعت کرو۔ (التغابن :16) 4۔ اس اللہ سے ڈرو جس کے سامنے تم اکٹھے کیے جاؤ گے۔ (المائدۃ:96) 5۔ اے مومن بندو! اپنے پروردگار سے ڈرو۔ (الاحزاب :70) 6۔ اللہ سے ڈرو اگر تم مومن ہو۔ (المائدۃ :57)