وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِّن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ
اور جب آپ کے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں آدمی (١٧) کو سڑی ہوئی مٹی کے کھنکھناتے ٹھیکرے سے پیدا کرنے والا ہوں۔
فہم القرآن : (آیت 28 سے 30) ربط کلام : تخلیق آدم کے بارے میں مختصر اشارہ کرنے کے بعد اس کے اعزاز کا تذکرہ۔ قرآن مجید کا یہ بھی اسلوب ہے کہ وہ کسی واقعہ کو کہانی اور زیب داستان کے لیے بیان نہیں کرتا۔ بلکہ ہر بات کو موقع محل کے مطابق اور مؤثر نصیحت کے طور پر بیان کرتا ہے۔ اثر آفرینی کے لیے کسی بات کا دوبارہ ذکر کرنا مقصود ہو تو اس کا انداز اور الفاظ پہلے بیان سے مختلف ہوتے ہیں۔ تاکہ پڑھنے والے کو نئے انداز کے ساتھ اس کی راہنمائی کے لیے نئی دلیل پیش کی جائے۔ اسی اصول کے پیش نظر حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق کا یوں بیان فرمایا ہے کہ اے انسان! جب تیرے رب نے ملائکہ کو حکم دیا کہ یقیناً میں بدبودار اور کھنکھناتی مٹی سے ایک انسان پیدا کرنے والا ہوں۔ جب میں اسے پوری طرح بنا دوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو اس کے سامنے سجدہ ریز ہوجانا۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق سب کے سب ملائکہ نے سجدہ کیا۔ پہلے پارے میں اس کی یوں تفصیل بیان فرمائی کہ جب آپ کے رب نے ملائکہ سے فرمایا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ خلیفہ سے مراد نمائندہ اور حکمران ہے۔ لیکن ملائکہ نے کہا، کیا آپ زمین میں اس کو خلیفہ بنائیں گے جو اس میں فساد کرے گا اور خون بہائے گا؟ ہم آپ کی حمد و ستائش کے ساتھ تسبیح اور پاکی عرض کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جواباً فرمایا جو کچھ میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔ پھر آدم (علیہ السلام) کو تمام چیزوں کے نام بتلائے گئے۔ اس کے بعد ان چیزوں کو ملائکہ کے سامنے پیش کر کے پوچھا اگر تم اپنی بات میں سچے ہو تو ان چیزوں کے نام بتلاؤ۔ ملائکہ نے معذرت پیش کرتے ہوئے عرض کی کہ اے اللہ! تو پاک ہے ہم اتنا ہی جانتے ہیں جتنا تو نے ہمیں بتلایا ہے۔ یقیناً تو ہی سب کچھ جاننے والاہے اور تیرے ہر کام اور فرمان میں حکمت پنہاں ہوتی ہے۔ پھر آدم (علیہ السلام) کو ان چیزوں کے نام بتلانے کا حکم دیا اور آدم (علیہ السلام) نے سب چیزوں کے نام بتلائے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ میں زمین و آسمان کے غیب کو جانتا ہوں اور میں وہ بھی جانتا ہوں جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ تم چھپاتے ہو۔ اس کے بعد ملائکہ کو حکم دیا کہ وہ آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کریں۔ ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا۔ یہاں فرمایا کہ جب میں اس کا ڈھانچہ بنا لوں اور اپنی روح پھونک دوں پھر سب کے سب اسے سجدہ کرو۔ (حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَی الأَشْعَرِیُّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) إِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ آدَمَ مِنْ قَبْضَۃٍ قَبَضَہَا مِنْ جَمِیْعِ الأَرْضِ فَجَاءَ بَنُو آدَمَ عَلَی قَدْرِ الأَرْضِ جَاءَ مِنْہُمُ الأَحْمَرُ وَالأَبْیَضُ وَالأَسْوَدُ وَبَیْنَ ذَلِکَ وَالسَّہْلُ وَالْحَزْنُ وَالْخَبِیثُ وَالطَّیِّبُ)[ رواہ ابوداؤد : باب فِی الْقَدَرِ] ” حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو مٹی کی ایک مٹھی سے پیدا فرمایا اسی لیے آدم کی اولاد زمین کی رنگت کے مطابق ہے بعض ان میں سے سرخ ہیں اور بعض سفید، اور بعض سیاہ اور انھی کے درمیان کچھ آرام اور سکون سے زندگی بسر کرنے والے ہیں اور کچھ غم زدہ اور کچھ خبیث النفس اور کچھ پاک ہیں۔“ روح کیا ہے؟ ﴿وَیَسْأَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّیْ وَمَآأُوتِیتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِیْلاً﴾[ بنی اسرائیل :85] ” وہ آپ سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں فرما دیں روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔“ (روح کی تفصیل سورۃ بنی اسرائیل کی آیت 85کی تفسیر میں بیان ہوگی۔ ان شاء اللہ ) مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے تخلیق انسانی سے پہلے فرشتوں کو آگاہ فرمایا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ 3۔ شیطان کے سوا تمام فرشتوں نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کیا۔