وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا وَزَيَّنَّاهَا لِلنَّاظِرِينَ
اور ہم نے آسمان میں (آفتاب و ماہتاب اور متحرک سیاروں کے لیے) منزلیں (١١) بنائیں ہیں اور اسے دیکھنے والوں کے لیے (ستاروں سے) آراستہ کیا ہے۔
فہم القرآن : (آیت 16 سے 18) ربط کلام : قرآن مجید آسمان سے نازل کیا گیا ہے۔ اس لیے مناسب سمجھا کہ آسمان کے نظام کا مختصر ذکر کیا جائے۔ خالق کائنات کا ارشاد ہے کہ ہم نے آسمان میں برج بنائے اور دیکھنے والوں کے لیے خوبصورت بنایا اور شیطان مردود سے انہیں محفوظ کردیا۔ اگر کوئی شیطان چوری چھپے سننا چاہے تو ایک روشن اور بھڑکتا ہوا شعلہ اس کا تعاقب کرتا ہے۔ پرانے زمانے کے اہل ہئیت یعنی فلکیات کا علم رکھنے والے لوگوں نے آسمان دنیا کے بارہ برج متعین کر رکھے ہیں مگر قرآن مجید کے بروج سے مراد وہ برج نہیں ہیں۔ بروج سے مراد کچھ اہل علم نے پہلے آسمان کے دروازے لیے ہیں۔ جن دروازوں کے ذریعے ملائکہ زمین پر اترتے اور پھر آسمان میں داخل ہوتے ہیں۔ قرآن مجید کے الفاظ سے یہ نتیجہ اخذ کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بروج سے مراد آسمان کے دروازوں میں ڈیوٹی دینے والے چوکیدار ملائکہ ہوں جن کو اللہ تعالیٰ نے شہاب ثاقب کی صورت میں اسلحہ دے رکھا ہوجن سے وہ شیاطین کو بھگاتے ہیں۔ اکثر علماء نے بروج سے مراد ستارے اور سیارے لیے ہیں۔ جن سے آسمان کو خوبصورت اور محفوظ بنایا گیا ہے۔ سرور دو عالم (ﷺ) سے برج کے بارے میں ہمیں کوئی وضاحت نہیں ملتی۔ البتہ آپ (ﷺ) نے آسمان کی حفاظت اور شیاطین کے تعاقب کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا ہے۔ (رواہ البخاری : کتاب التفسیر سورۃ سبا) ﴿ شہاب مبین﴾ کے لغوی معنی ” روشن شعلہ“ کے ہیں۔ دوسری جگہ قرآن مجید میں اس کے لیے ” شہاب ثاقب“ کا لفظ استعمال ہوا ہے، یعنی ” تاریکی کو چھیدنے والا شعلہ۔“ اس سے مراد ضروری نہیں کہ وہ ٹوٹنے والا تارہ ہی ہو جسے ہماری زبان میں شہاب ثاقب کہا جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ شعاعیں ہوں، مثلاً کائناتی شعائیں (Cosmic Rays) یا ان سے بھی زیادہ شدید قسم کی کوئی چیز جو ابھی ہمارے علم میں نہ آئی ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہی شہاب ثاقب مراد ہوں جنہیں کبھی کبھی ہماری آنکھیں زمین کی طرف گرتے ہوئے دیکھتی ہیں۔ زمانۂ حال کے مشاہدات سے یہ معلوم ہوا ہے کہ دوربین سے دکھائی دینے والے شہاب ثاقب جو فضائے بسیط سے زمین کی طرف آتے نظر آتے ہیں، ان کی تعداد کا اوسط 10کھرب روزانہ ہے، جن میں سے دو کروڑ کے قریب ہر روز زمین کے بالائی خطے میں داخل ہوتے ہیں اور بمشکل ایک زمین کی سطح تک پہنچتا ہے۔ ان کی رفتار بالائی فضا میں کم و بیش 26میل فی سیکنڈ ہوتی ہے جو بسا اوقات 50میل فی سیکنڈ تک دیکھی گئی ہے۔ بارہا ایسا بھی ہوا ہے کہ برہنہ آنکھوں نے بھی ٹوٹنے والے تاروں کی غیر معمولی بارش دیکھی ہے۔ چنانچہ یہ چیز ریکارڈ پر موجود ہے کہ 13نومبر 1833ء کو شمالی امریکہ کے مشرقی علاقے میں صرف ایک مقام پر نصف شب سے لے کر صبح تک 2لاکھ شہاب ثاقب گرتے ہوئے دیکھے گئے۔ (انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا) ہوسکتا ہے کہ یہی بارش عالم بالا کی طرف شیاطین کی پرواز میں مانع ہوتی ہو، کیونکہ زمین کے بالائی حدود سے گزر کر فضائے بسیط میں 10کھرب روزانہ کے اوسط سے ٹوٹنے والے تاروں کی برسات ان کے لیے اس فضا کو بالکل ناقابل عبور بنا دیتی ہے۔ (بحوالہ تفہیم القرآن) (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ یَبْلُغُ بِہِ النَّبِیَّ (ﷺ) قَالَ إِذَا قَضَی اللّٰہُ الأَمْرَ فِی السَّمَاءِ ضَرَبَتِ الْمَلاَئِکَۃُ بِأَجْنِحَتِہَا خُضْعَانًا لِقَوْلِہِ کَالسِّلْسِلَۃِ عَلَی صَفْوَانٍ قَالَ عَلِیٌّ وَقَالَ غَیْرُہُ صَفْوَانٍ یَنْفُذُہُمْ ذَلِکَ فَإِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوْبِہِمْ قَالُوْا مَاذَا قَالَ رَبُّکُمْ، قَالُوا لِلَّذِیْ قَالَ الْحَقَّ وَہْوَ الْعَلِیُّ الْکَبِیرُ، فَیَسْمَعُہَا مُسْتَرِقُو السَّمْعِ، وَمُسْتَرِقُو السَّمْعِ ہَکَذَا وَاحِدٌ فَوْقَ آخَرَ وَوَصَفَ سُفْیَانُ بِیَدِہِ، وَفَرَّجَ بَیْنَ أَصَابِعِ یَدِہٖ الْیُمْنَی، نَصَبَہَا بَعْضَہَا فَوْقَ بَعْضٍ فَرُبَّمَا أَدْرَکَ الشِّہَابُ الْمُسْتَمِعَ، قَبْلَ أَنْ یَرْمِیَ بِہَا إِلَی صَاحِبِہِ، فَیُحْرِقَہُ وَرُبَّمَا لَمْ یُدْرِکْہُ حَتّٰی یَرْمِیَ بِہَا إِلَی الَّذِیْ یَلِیہِ إِلَی الَّذِی ہُوَ أَسْفَلُ مِنْہُ حَتَّی یُلْقُوہَا إِلَی الأَرْضِ وَرُبَّمَا قَالَ سُفْیَانُ حَتّٰی تَنْتَہِیَ إِلَی الأَرْضِ فَتُلْقَی عَلَی فَمِ السَّاحِرِ، فَیَکْذِبُ مَعَہَا ماءَۃَ کَذْبَۃٍ فَیَصْدُقُ، فَیَقُوْلُوْنَ أَلَمْ یُخْبِرْنَا یَوْمَ کَذَا وَکَذَا یَکُوْنُ کَذَا وَکَذَا، فَوَجَدْنَاہُ حَقًّا لِلْکَلِمَۃِ الَّتِی سُمِعَتْ مِنَ السَّمَاءِ) [ رواہ البخاری : باب قَوْلِہِ ﴿إِلاَّ مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَأَتْبَعَہُ شِہَابٌ مُبِینٌ﴾] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ان کو نبی (ﷺ) کی یہ حدیث پہنچی جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کسی کام کا فیصلہ فرماتا ہے تو فرشتے عاجزی کے ساتھ اپنے پر ہلاتے ہیں جس طرح کہ چٹان پر پھوار پڑتی ہے حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ ملائکہ اس حکم کا نفاذ کرتے ہیں جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور ہوجاتی ہے تو کہتے ہیں تمھارے رب نے کیا فرمایا وہ کہتے ہیں حق فرمایا۔ وہی سب سے بلند و بالا ہے پس شیاطین اسے چوری چھپے سنتے ہیں اور ان کے سننے کا طریقہ یہ ہے کہ ایک دوسرے کے کندھوں پر سوار ہوتے ہوئے آسمان تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سفیان نے اپنے ہاتھوں کو ایک دوسرے کے اوپر رکھتے ہوئے سے اس کو بیان کرتے کیا بسا اوقات سننے والے شیطان پر شہاب ثاقب لپکتا ہے پہلے اس کے کہ وہ اس بات کو اپنے ساتھی تک پہنچائے وہ اس کو جلا دیتا ہے اور بسا اوقات شہاب ثاقب اسے نہیں پہنچتا یہاں تک کہ وہ شیطان اسے نیچے والوں تک پہنچا دیتا ہے۔ یہ بات چلتے چلتے زمین والوں تک پہنچ جاتی ہے ابو سفیان کہتے ہیں یہاں تک کہ وہ اس بات کو زمین والوں تک پہنچا دیتا اور اسے جادو گر کے منہ میں القاء کرتے ہیں۔ وہ اس کے ساتھ سو جھوٹ ملاتا ہے اس کی ایک بات کی وجہ سے اس کی تصدیق ہوجاتی ہے وہ کہتا ہے میں نے فلاں فلاں موقع پر تمھیں فلاں فلاں بات نہیں بتلائی تھی اور وہ حق ثابت ہوئی تھی اس وجہ سے کہ وہ بات انھوں نے آسمان سے سنی تھی۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان میں برج بنائے ہیں۔ 2۔ آسمان کوستاروں سے آراستہ فرمادیا گیا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان کو شیاطین سے محفوظ کردیا ہے۔ 4۔ چوری کرنے والے شیطان کے پیچھے ایک روشن شعلہ لگ جاتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: برجوں اور ستاروں کا بیان : 1۔ ہم نے آسمان میں برج بنائے اور دیکھنے والوں کے لیے انھیں آراستہ کیا۔ (الحجر :16) 2۔ بابرکت ہے وہ ذات جس نے آسمان میں برج بنائے۔ (الفرقان :61) 3۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان کو ستاروں سے سجایا۔ (البروج :1) 4۔ ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں سے آراستہ کردیا ہے۔ (الصافات :6) 5۔ ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں سے مزین کیا اور شیطانوں سے محفوظ رکھا۔ (حٰم السجدۃ:12) 6۔ کیا انہوں نے اوپر آسمان کی طرف نگاہ نہیں کی کہ ہم نے اس کو کیسے بنایا اور سجایا۔ (ق :6) 7۔ ہم نے آسمان کو ٹٹولا تو اسے مضبوط چوکیداروں اور انگاروں سے بھرا ہو اپایاجناب کا بیان۔ (الجن :8)