سورة الحجر - آیت 6

وَقَالُوا يَا أَيُّهَا الَّذِي نُزِّلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ إِنَّكَ لَمَجْنُونٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور کفار مکہ نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا (٥) اے وہ شخص جس پر قرآن نازل کیا گیا ہے تو یقینا پاگل ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 6 سے 8) ربط کلام : حق کا انکار اور دنیا پرستی کی وجہ سے لوگ انبیاء کرام (علیہ السلام) کو مجنوں کہا کرتے تھے۔ حق کے منکر اور دنیا پرست لوگوں کے سامنے دنیا کی جاہ و حشمت، وسائل اور ترقی ہی سب کچھ ہوا کرتی ہے۔ وہ انبیاء (علیہ السلام) اور مصلحین حضرات کو پاگل قرار دیتے ہیں۔ کیونکہ انبیاء کی تعلیم کا خلاصہ یہ ہے کہ دنیا کے مقابلے میں آخرت کو مقدم سمجھا جائے۔ ظاہر ہے یہ بات دنیا پرست شخص کو کسی صورت گوارا نہیں ہوتی۔ اس لیے حق کے منکر اور دنیا پرست لوگ درج ذیل وجوہات کی بناء پر انبیاء کرام (علیہ السلام) کو پاگل کہا کرتے تھے۔ 1۔ اللہ تعالیٰ نے جتنے انبیاء ( علیہ السلام) دنیا میں مبعوث فرمائے وہ نبوت سے پہلے اپنی برادری اور قوم میں انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ لیکن جو نہی وہ حق کی دعوت لے کر اٹھے۔ معاشرے میں احترام کی بجائے انہیں نفرت کی نگاہوں سے دیکھا جانے لگا۔ اس بناء پر دنیا دار لوگ انہیں پاگل قرار دیتے کہ یہ کیسا شخص ہے؟ کہ بنی بنائی عزت برباد کربیٹھا ہے۔ 2۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) اپنے مشن میں انتہا درجہ مخلص ہوا کرتے تھے۔ اس لیے وہ شب و روز اس کام میں مصروف رہتے۔ جس بناء پر انہیں مالی نقصان اٹھانا پڑتا۔ یہاں تک کہ وہ کئی کئی دن بھوکے رہ کر بھی اپنا کام جاری رکھتے۔ اس وجہ سے دنیا دار لوگ انھیں مجنون کہتے تھے۔ 3۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) دعوت حق کی خاطر کئی قسم کے الزامات برداشت کرتے۔ یہاں تک کہ بے شمار انبیاء (علیہ السلام) قتل کردیے گئے۔ دنیا پرست لوگ ان کی موت پر یہ تبصرہ کرتے کہ اس شخص نے خواہ مخواہ لوگوں کی دشمنی مول لی اور اپنے آپ کو ہلاک کرلیا۔ پہلے انبیاء کرام (علیہ السلام) کی طرح سرور دو عالم (ﷺ) بھی دعوت حق کی خاطر ہر قسم کا نقصان اٹھانے اور دشمنی مول لیتے ہوئے دن رات ایک کیے ہوئے تھے۔ جس بناء پر لوگ آپ (ﷺ) کو پاگل کہتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود آپ حق کے ابلاغ کے لیے دن رات کام کرتے تھے۔ جب لوگ آپ کی دعوت اور اخلاص کا مقابلہ نہ کر پائے تو انہوں نے یہ مطالبہ کر ڈالا کہ ہم اس وقت اس کی نبوت کو تسلیم نہیں کریں گے جب تک کوئی فرشتہ اس کی تائید اور تصدیق کے لیے ہمارے پاس نہیں آئے گا۔ یاد رہے اس بات میں بھی کفار کا موقف ایک نہیں رہتا تھا۔ ایک وقت میں یہ مطالبہ کرتے کہ اس نبی کو انسان کے بجائے فرشتہ ہونا چاہیے تھا۔ جب اس کا یہ جواب دیا گیا کہ اگر زمین میں بسنے والے لوگ فرشتے ہوتے تو ان کے لیے نبی بھی فرشتہ بھیجا جاتا۔ کیونکہ زمین میں بسنے والے انسان ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی سہولت اور راہنمائی کے لیے انسان کو ہی نبی مبعوث فرمایا ہے جب اس دلیل کے سامنے لاجواب ہوتے تو پھر یہ مطالبہ کرتے کہ اس کی تائید کے لیے ہمارے پاس فرشتہ آنا چاہیے۔ جس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ جب فرشتے نازل ہوتے ہیں تو پھر حق کا انکار کرنے والوں کو مزید مہلت دینے کے بجائے ان کا صفایا کردیا جاتا ہے۔ مسائل: 1۔ کفار آپ (ﷺ) کو مجنوں کہا کرتے تھے۔ 2۔ کفار آپ (ﷺ) سے فرشتوں کے نزول کا مطالبہ کرتے تھے۔ 3۔ جب اللہ تعالیٰ فرشتوں کو بھیج دیتا ہے تو پھر کسی کو مہلت نہیں ملتی۔ تفسیر بالقرآن : حق کا انکار کرنے والوں پر جب فرشتے نازل ہوئے تو ان کا صفایا کردیا گیا : 1۔ ہم نہیں اتارتے فرشتوں کو مگر حق کا فیصلہ کرنے کے لیے اور اس وقت ان کو مہلت نہیں دی جاتی۔ (الحجر :8) 2۔ اگر ہم فرشتے اتار دیتے تو قصہ ختم ہوجاتا اور انہیں مہلت نہ دی جاتی۔ (الانعام :8) 3۔ جب قوم لوط پر فرشتے آئے۔ تو اللہ نے انہیں ملیا میٹ کردیا۔ (ہود : 81تا83) 4۔ زمین پر بسنے والے انسان ہیں اس لیے ” اللہ“ نے انسان ہی پیغمبر مبعوث فرمائے۔ (بنی اسرائیل :95) 5۔ کیا وہ اس انتظار میں ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یا تیرا پروردگار آئے یا اس کی بعض آیات آئیں جس دن اس ہوگیا تو پھر کسی کو اس کا ایمان فائدہ نہیں دے گا۔ (الانعام :158)