سورة الحجر - آیت 0

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

میں شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان، بے حد رحم کرنے والا ہے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

بسم اللہ الرحمن الرحیم تعارف سورۃ الحجر : حجاز سے ملک شام کی طرف جانے والے راستہ پر حجر کا علاقہ پایا جاتا ہے۔ اسی مناسبت سے اس سورت کا نام الحجر رکھا گیا ہے۔ جس کا ذکر اس سورت کی آیت 80میں موجود ہے۔ یہ سورت چھ رکوع اور ننانوے آیات پر مشتمل ہے۔ سورۃ الحجر مکہ معظمہ اور اس کے گرد نواح میں نازل ہوئی۔ سورت کی ابتدا میں قرآن مجید کو روشن کتاب قرار دینے کے بعد کفار کو اس بات کا انتباہ کیا گیا ہے۔ کھاؤ، پیو اور عیش کرو۔ مگر عنقریب تمھیں اس بات کا پچھتاوا ہوگا کہ کاش ! ہم مسلمان ہوتے یعنی اللہ تعالیٰ کے تابع فرمان بنتے۔ انہیں یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ قرآن مجید کی تکذیب کرنے اور نبی (ﷺ) کو مجنون قرار دینے کے باوجود تم پر اللہ تعالیٰ کی گرفت نازل نہیں ہوئی۔ تو یہ مہلت اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر فرد اور قوم کی اجل کا ایک وقت مقرر کر رکھا ہے جو کسی کی نیکی یا نافرمانی کی وجہ سے آگے پیچھے نہیں ہوسکتا۔ جہاں تک قرآن مجید کا منجانب اللہ ہونا اور اس کی سچائی کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ ہی نے اسے نازل فرمایا ہے اور وہی اس کی حفاظت کرے گا۔ درحقیقت تم لوگ جس قسم کی الزام تراشی اور مطالبے کرتے ہو اسی طرح کے الزمات اور مطالبے تم سے پہلے مجرم کرچکے ہیں۔ اس کے بعد آسمان کا ذکر ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے برج بنائے اور ستاروں کے ذریعے اسے خوبصورت بنایا ہے۔ ستارے ایک طرف آسمان کی خوبصورتی کا سبب ہیں اور دوسری طرف شیاطین کے لیے بھڑکتے ہوئے شعلوں کا کام دیتے ہیں۔ تیسرے رکوع میں یہ بیان کیا ہے کہ انسان کو کھڑکھڑانے والی اور بدبودار مٹی سے اور جنات کو آگ کی لپیٹ سے پیدا کیا گیا ہے، پھر موقع کی مناسبت سے آدم (علیہ السلام) کے سامنے ملائکہ کا سجدہ کرنا اور شیطان کا سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے لعین قرار پانا اور شیطان کی درخواست کو قبول کرتے ہوئے قیامت تک اسے مہلت دینے کا تذکرہ ہوا ہے۔ اس بیان کے بعد قوم لوط کی تباہی کے لیے بھیجے جانے والے ملائکہ کے سفر کی روداد بیان کرتے ہوئے ان کا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس جانا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ان کی مہمان نوازی کا اہتمام کرنا۔ ملائکہ کا کھانے سے انکار اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو حضرت اسحق (علیہ السلام) کی خوشخبری دینے کا ذکر ہے۔ بعد ازاں ملائکہ کا حضرت لوط (علیہ السلام) کے پاس پہنچنا۔ ملائکہ کی آمد سے حضرت لوط (علیہ السلام) کا پریشان ہونا۔ ملائکہ کا حضرت لوط (علیہ السلام) کو تسلی دیتے ہوئے یہ اعلان کرنا کہ صبح کے وقت آپ کی قوم کے مجرموں کو نیست و نابود کردیا جائے گا۔ سورۃ الحجر کے آخر میں قوم حجر کی ترقی اور تباہی کا ذکر کرتے ہوئے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ آپ کو دنیا کی عیش و عشرت کی طرف توجہ دینے کی بجائے اپنے ساتھیوں کی طرف توجہ مبذول رکھنی چاہیے۔ جہاں تک آپ کے مخالفوں کا تعلق ہے ان سے اعراض فرمائیں۔ کیونکہ مذاق اڑانے والوں کے مقابلے میں آپ کا رب آپ کے لیے کافی ہے۔ آپ کا رب جانتا ہے کہ ان کے الزامات اور استہزا کی وجہ سے آپ کا دل غمگین ہوتا ہے۔ آپ کو نصیحت کی جاتی ہے کہ آپ اپنے مخالفوں کی طرف توجہ دینے کی بجائے اپنے رب کی عبادت میں مصروف ہوجایا کریں۔ یہ کام آپ نے اپنی موت تک کرتے رہنا ہے۔