وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ اجْتُثَّتْ مِن فَوْقِ الْأَرْضِ مَا لَهَا مِن قَرَارٍ
اور ناپاک اور خبیث کلمہ اس برے اور خبیث درخت کے مانند ہے جو زمین کی بالائی سطح سے ہی اکھاڑ لیا گیا ہو، جس کی جڑ مضبوط نہ ہو۔
فہم القرآن : ربط کلام : کلمہ طیبہ کے بعد کلمہ خبیثہ کی مثال۔ کلمہ طیبہ کے مقابلہ میں کلمہ خبیثہ ہے۔ جس طرح کلمہ طیبہ کے دنیاو آخرت میں فوائد وثمرات ہیں۔ اسی طرح دنیا اور آخرت میں کلمہ خبیثہ کے مضمرات اور نقصانات ہیں۔ اگر تعمق نگاہی کے ساتھ دیکھا جائے تو عقیدہ کا سب سے پہلا اثر انسان کی سوچ پر پڑتا ہے۔ اگر عقیدہ ٹھیک ہے تو اس کی سوچ مثبت اور ٹھیک ہوگی، اگر عقیدہ غلط ہے تو اس کی سوچ بھی منفی اور غلط ہوگی۔ دوسرے الفاظ میں سوچ تبدیل ہوگی تو انسان تبدیل ہوگا۔ انسان تبدیل ہوگا تو پورا نظام تبدیل ہوگا۔ اس لیے دین سب سے زیادہ زورعقیدہ کی درستگی پر دیتا ہے، جسے قرآن و حدیث کی زبان میں ایمان کہا گیا ہے۔ ایمان کو درست رکھنے اور اس کو مضبوط کرنے کے لیے ارکان اسلام مقرر کیے گئے ہیں۔ ان کی ادائیگی سے ایمان مضبوط ہوتا ہے اور ایمان کی مضبوطی سے کردار میں نکھار اور پختگی پیدا ہوتی ہے۔ اس لیے کلمہ طیبہ کے ثمرات کے ذکر کے بعد کلمہ خبیثہ کی بات کی ہے۔ اگر عقیدہ باطل ہے تو سوچ بھی غلط اور باطل ہوگی، جب سوچ غلط ہوگی تو عمل لامحالہ غلط ہوگا۔ جس طرح اچھے بیج سے اچھا درخت اور اس سے میٹھا پھل حاصل ہوتا ہے، اسی طرح برے بیچ سے ناقص درخت پیدا ہوگا، اس کا پھل کڑوا اور بے فائدہ ہوگا، یہ ایسادرخت ہے جس کی نہ جڑیں مضبوط ہیں اور نہ ہی اس کا تنا۔ یہی باطل عقیدہ اور برے عمل کی مثال ہے۔ بے شک دیکھنے میں کتنا اچھا لگتا ہو، اس کا نتیجہ دنیا میں بھی برا ہوگا۔ آخرت میں تو ہر صورت اس کا انجام برا ہوگا۔ یہی اچھے اور برے عقیدہ کی مثال ہے۔ جیسے ایک پاکیزہ اور خبیثہ شجر کے ذریعے سمجھایا گیا ہے۔ ذات کبریا کا خوف اور آخرت کا ڈر اٹھ جائے تو انسان درندہ بن جاتا ہے۔ ذات اقدس کی حیا نہ رہے تو انسان سے ہر برائی کی توقع ہو سکتی ہے۔ قرآن مجید کھلے الفاظ میں بتلا رہا ہے کہ برائی کو قرار حاصل نہیں بشرطیکہ حق میں آگے بڑھنے کی ہمت ہو کیونکہ حق میں یہ خصوصیت ہے کہ اسے قرار اور ثبات ہے اور باطل میں یہ قوت اور صلاحیت نہیں پائی جاتی۔ ﴿وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَہُوْقًا﴾[ بنی اسرائیل :81] ” اور کہہ دو کہ حق آگیا اور باطل نابود ہوگیا بے شک باطل نابود ہونے والا ہے۔“ اللہ تعالیٰ پر ایمان مضبوط ہے تو بڑی سے بڑی پریشانی میں بھی انسان دین اسلام پر قائم اور اپنے رب پر راضی رہے گا۔ اگر عقیدہ یعنی ایمان کمزور ہے تو چھوٹی سی آزمائش اور معمولی نقصان کے اندیشہ سے انسان دین کے اصول کو چھوڑ دے گا۔ جیسے قرآن مجید نے یوں بیان فرمایا ہے : ” اور جو شخص اپنا چہرہ اللہ کی طرف سپرد کردے اور وہ نیکی کرنے والا ہو تو یقیناً اس نے مضبوط کڑے کو اچھی طرح پکڑ لیا۔ تمام کاموں کا انجام اللہ ہی کی طرف ہے۔“ (لقمان :22) برے عمل اور بری سوچ کا برا نتیجہ : (وَعَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) اِنَّ مِمَّا اَدْرَکَ النَّاسُ مِنْ کَلَام النُّبُوَّۃِ الْاُوْلٰی اِذَا لَمْ تَسْتَحْیِ فَاصْنَعْ مَا شِئْتَ)[ رواہ البخاری : کتاب أحادیث الأنبیاء، الباب الأخیر] ” حضرت عبداللہ مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا‘ لوگوں نے پہلے انبیاء کے کلام میں سے جو بھی پایا ہے‘ اس میں یہ بات ہے کہ جب تجھ میں شرم نہیں تو جو چاہے کرتا رہ۔“ مسائل: 1۔ برے عقیدے کی مثال اس درخت کی سی ہے جس کا پھل کڑوا ہے۔ 2۔ جس طرح زمین میں گہری جڑیں نہ رکھنے والا درخت قائم نہیں رہ سکتا، اسی طرح کمزور عقیدہ شخص آزمائش کے وقت دین پر قائم نہیں رہتا۔ تفسیر بالقرآن: کفر و شرک کی مثال : 1۔ کفرو شرک کی مثال اس درخت کی سی ہے جو زمین کے اوپر ہی اوپر کھڑا ہو۔ (ابراہیم :26) 2۔ اے لوگو! تمہارے لیے مثال بیان کی جاتی ہے اسے غور سے سنو جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے۔ (الحج :73) 3۔ کفار کے اعمال کی مثال تیز آندھی کی سی ہے جس طرح تیز آندھی سب کچھ اڑا کرلے جاتی ہے ایسے ہی کفار کے اعمال غارت ہوجائیں گے۔ (ابراہیم :18) 4۔ کفار کا حال تو اس شخص کا سا ہے جو ایسے جانور کے پیچھے چلا آرہا ہے جو پکارنے اور بلانے کے باوجود کچھ سنتانہیں۔ (البقرۃ:171) 5۔ حق کے فوائد ہمیشہ رہنے والے ہیں اور باطل مٹنے والا ہے۔ (الرعد :17) 6۔ اس کی مثال کتے کی سی ہے اگر حملہ کرو تو تب بھی زبان لٹکائے ہوئے اور اگر چھوڑدو پھر بھی وہی حالت۔ (الاعراف :176)