سورة ابراھیم - آیت 13

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِرُسُلِهِمْ لَنُخْرِجَنَّكُم مِّنْ أَرْضِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا ۖ فَأَوْحَىٰ إِلَيْهِمْ رَبُّهُمْ لَنُهْلِكَنَّ الظَّالِمِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا کہ اگر تم ہمارے دین میں واپس نہ آئے تو ہم یقینا تمہیں اپنی سرزمین سے باہر (١٢) کردیں گے، تو ان کے رب نے انہیں بذریعہ وحی بتایا کہ ہم ظالموں کو ہلاک کردیں گے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 13 سے 15) ربط کلام : انبیائے کرام (علیہ السلام) اور مومنین کے جواب میں کفار کی دھمکیاں۔ کفار اور مشرکین کی شروع ہی سے یہ عادت رہی ہے کہ دلیل کا جواب دلیل سے دینے کی بجائے انبیاء ( علیہ السلام) اور ان کے متبعین کے خلاف ہرزہ سرائی اور طاقت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کی سر توڑ کوشش ہوتی ہے کہ انبیاء ( علیہ السلام) پر ایمان لانے والوں پر اس قدر جبرو ستم کیا جائے کہ وہ انبیاء ( علیہ السلام) کی دعوت قبول کرنے سے نہ صرف انکار کریں بلکہ اپنی جان کے خوف سے ایمان سے دست کش ہو کر کفر میں پلٹ آئیں۔ انبیاء (علیہ السلام) کے کردار اور ان کی استقامت کے بارے میں کفار کو یقین ہوتا تھا کہ یہ مرجائیں گے مگر اپنے عقیدے اور دعوت سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔ اس لیے انبیاء (علیہ السلام) کے بارے میں کفار کا عمومی طور پر یہ روّیہ رہا ہے کہ انہیں قتل کردیا جائے یا اپنے ملک سے نکلنے پر مجبور کردیا جائے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کو انہوں نے پتھر مار مار کر مار ڈالنے کی دھمکی دی ان کے بعد جتنے پیغمبر مبعوث کیے گئے۔ ان میں سے کچھ انبیاء (علیہ السلام) کو شہید کیا گیا اور چند ایک انبیاء (علیہ السلام) کو چھوڑ کر باقی کو ان کے وطن سے نکلنے پر مجبور کردیا گیا۔ یہی کچھ نبی آخر الزمان (ﷺ) اور آپ کے جانثار ساتھیوں کے ساتھ کیا گیا۔ جب بھی یہ صورت حال پیش آئی تو اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہ السلام) کو وحی فرمائی کہ ثابت قدم رہیے اور ہمارے حکم کے مطابق کرتے جائیے۔ ہم ظلم کرنے والوں کو ہر صورت ہلاک کریں گے اور تمہیں ضرور زمین میں تمکنت عطا فرمائیں گے۔ یہ مرتبہ اور مقام ہر اس شخص کے لیے ہے جو اللہ کے سامنے کھڑا ہونے اور اس کی وعید سے ڈرتا رہے گا۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے ہر جابر اور ظالم کو نا کام کردیا۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو زمین میں عزت وعظمت اور برکات سے نوازا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) سے لے کر نبی آخر الزمان (ﷺ) اور آپ کے اصحاب (رض) کی تاریخ اس پر پوری طرح گواہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دشمنوں کو دنیا میں ذلیل وخوار کیا۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ : ﴿وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ﴾[ العنکبوت :69] ” جن لوگوں نے ہمارے لیے کوشش کی ہم ان کو ضرور اپنا راستہ دکھلائیں گے اور اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کے ساتھ ہے۔“ مسائل: 1۔ کفار انبیاء ( علیہ السلام) کو راہ راست سے بھٹکانے کی ہر ممکن کوشش کرتے تھے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہ السلام) کے ساتھ ان کے دشمنوں کو ہلاک کرنے کا وعدہ پورا فرمایا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء ( علیہ السلام) کو زمین میں عزت و تمکنت عطا فرمائی۔ 4۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو زمین میں اقتدار دینے کا وعدہ فرمایا ہے۔ تفسیر بالقرآن : انبیاء ( علیہ السلام) اور ان کے ساتھی کامیاب اور کفار ذلیل ہوئے : 1۔ ہم ظالموں کو ہلاک کریں گے اور تمہیں ان کے بعد زمین میں بسائیں گے یہ وعدہ ہر اس شخص کے لیے ہے جو میرے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرجائے۔ (ابراہیم : 13۔14) 2۔ کفارنے حضرت نوح کو جھٹلایا ہم نے نوح اور اس کے ماننے والوں کو نجات دی۔ (الاعراف :64) 3۔ ہم نے موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کو نجات دی۔ (الشعرا :65) 4۔ ہم نے شعیب اور ایمان لانے والوں کو نجات دی۔ (ہود :94)