قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ إِن نَّحْنُ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَمُنُّ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۖ وَمَا كَانَ لَنَا أَن نَّأْتِيَكُم بِسُلْطَانٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ
ان کے رسولوں نے ان سے کہا کہ ہم بیشک تمہاری ہی طرح انسان (١١) ہیں لیکن اللہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے احسان کرتا ہے اور ہم اللہ کی مرضی ور اجازت کے بغیر تمہارے لیے کوئی دلیل نہیں لاسکتے ہیں اور مومنوں کو صرف اللہ پر بھروسہ کرنا چاہیے۔
فہم القرآن : ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ انبیاء ( علیہ السلام) کی بشریت کا جواب، انبیاء ( علیہ السلام) کی زبان اطہر سے۔ مشرکین کی عجب حالت ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس کی کامل صفات کے ساتھ ماننے کی بجائے دوسروں کو اس کی صفات میں بلادلیل شامل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو سراسر شرک ہے۔ تمام پیغمبر اس شرک سے لوگوں کو منع کرنے کے لیے مبعوث کیے گئے۔ لیکن جب بھی اپنے اپنے دور میں پیغمبروں نے لوگوں کو توحید خالص کی دعوت دی تو لوگوں نے اس پر ایمان لانے کی بجائے پیغمبروں کی دعوت کو یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ تم تو ہمارے جیسے انسان ہو۔ قرآن مجید کے ارشاد کے مطابق ہر پیغمبر نے اس بات کا یہی جواب دیا کہ ” اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم بھی تمہارے جیسے انسان ہیں۔ لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر خصوصی احسان ہے کہ اس نے ہمیں اپنے کام اور پیغام کے لیے منتخب فرمایا ہے۔ یہ اسی کا اختیار ہے کہ وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے اپنے کام اور پیغام کے لیے منتخب کرلے۔ کیونکہ ہم اس کے بندے اور اس کے پیغام رساں ہیں۔ اس لیے ہمارے اختیار میں نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر کوئی معجزہ تمہارے سامنے پیش کرسکیں۔ ایمان لانے والوں کو متزلزل ہونے کی بجائے اللہ پر ہی توکل کرنا چاہیے۔ اس آیت مبارکہ میں دو ٹوک الفاظ میں انبیاء کرام (علیہ السلام) کی زبان اطہر سے واضح کیا ہے کہ تمام کے تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) ” بشر“ تھے اور ان کے پاس یہ اختیار نہیں تھا کہ جب چاہیں، جس طرح چاہیں کوئی معجزہ لوگوں کے سامنے پیش کرسکیں۔ اس آیت کے آخری الفاظ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ انبیاء (علیہ السلام) کا جواب صرف کفار کے لیے ہی نہیں تھا۔ بلکہ وہ اپنے ماننے والوں کو بھی یہی بتلایا کرتے تھے کہ ہم بھی تمہارے جیسے انسان ہیں۔ لہٰذا کفار کے بار بارمطالبات کی بنیاد پر ہم سے ایسی توقع نہ رکھو جو ہمارے بس کی بات نہیں۔ بس اللہ تعالیٰ پر ایمان پختہ رکھو اور اسی کی ذات پر توکل کرو۔ جب وہ چاہے گا ہمارے ہاتھ پر کوئی معجزہ سرزد فرما کر کفار کو لاجواب کردے گا۔ یاد رہے کہ ہر دور کے کافر یہ بات کہہ کر پیغمبروں کی بشریت کا انکار کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے پیغام کے لیے انسان کی بجائے کسی فرشتے کو مقرر کرنا چاہیے تھا۔ جس کا جواب قرآن مجید نے یہ دیا ہے کہ اگر زمین میں بسنے والے فرشتے ہوتے تو اللہ تعالیٰ انہی میں سے ایک فرشتے کو رسول منتخب کرتا۔ چونکہ زمین میں انسان بستے ہیں اس لیے ان کی سہولت اور رہنمائی کے لیے بشر ہی کو رسول بنایا گیا ہے۔ (بنی اسرائیل :95) افسوس اس بات کا ہے کہ اتنی واضح حقیقت کے باوجود مسلمانوں کا ایک گروہ یہ کہہ کر بشریت کا انکار کرتا ہے کہ نبی (ﷺ) کو انسانوں جیسا انسان کہنا آپ (ﷺ) کی شان میں گستاخی کرنا ہے، حالانکہ دنیا میں کوئی ایک مسلمان بھی ایسا نہیں جو رسول معظم (ﷺ) کو جمال وکمال، اخلاق اور اعمال مرتبہ اور شان کے حوالے سے اپنے جیسا سمجھتا ہو۔ ایسا سمجھنے والا شخص صرف گستاخ نہیں بلکہ پر لے درجے کا مرتد اور واجب القتل ہوگا۔ قرآن مجید کے فرمان اور انبیاء (علیہ السلام) کے اعتراف کے مطابق انبیاء ( علیہ السلام) کی بشریت کا صرف یہ معنی ہے کہ تمام انبیاء ( علیہ السلام) بنی نوع انسانوں میں سے تھے اور وہ بھی کھانے پینے، چلنے پھرنے، اٹھنے بیٹھنے، سونے جاگنے اور موت وحیات کے انہی ضابطوں کے پابند تھے جو اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے لیے مقرر فرمائے ہیں۔ مسائل: 1۔ تمام رسول بشر ہی ہوا کرتے ہیں۔ 2۔ اللہ تعالیٰ جس پر چاہتا ہے احسان فرماتا ہے۔ 3۔ انبیاء ( علیہ السلام) اپنی طرف سے کوئی معجزہ نہیں لاسکتے تھے۔ 4۔ مومنوں کو اللہ تعالیٰ پرہی توکل کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن : تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) بشر تھے : 1۔ انبیاء نے فرمایا کہ ہم تمہاری ہی طرح بشر ہیں لیکن اللہ جس پر چاہتا ہے احسان فرماتا ہے۔ (ابراہیم :11) 2۔ نہیں ہے یہ مگر تمہارے جیسا بشر اور یہ تم پر فضیلت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ (المومنون :24) 3۔ نہیں ہے تو مگر ہمارے جیسا بشر کوئی نشانی لے کر آ اگر تو سچا ہے۔ (الشعراء :154) 4۔ نہیں ہے یہ مگر تمہارے جیسا بشر جیسا تم کھاتے ہو، ویسا وہ کھاتا ہے۔ (المومنون :33) 5۔ ہم نے آپ سے پہلے جتنے بھی نبی بھیجے وہ بشر تھے۔ (النحل :43) 6۔ آپ (ﷺ) اعلان فرمائیں کہ میں تمھارے جیسا انسان ہوں۔ (الکہف :110)