سورة الرعد - آیت 38

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّن قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةً ۚ وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَن يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ لِكُلِّ أَجَلٍ كِتَابٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور ہم نے آپ سے پہلے انبیاء و رسل بھیجے اور انہیں بیویاں (٣٧) اور اولاد دی، اور کسی رسول کو یہ قدرت حاصل نہیں تھی کہ وہ اللہ کی مرضی کے بغیر کوئی نشانی (٣٨) لاسکے، ہر کام کا مقرر وقت لکھا ہوا ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 38 سے 39) ربط کلام : نئے خطاب کا آغاز اور کفار کے ایک اعتراض کا جواب۔ مکہ اور حجاز کے کافر جہالت اور عصبیت کی بناء پر رسول محترم (ﷺ) پر یہ اعتراض بھی کیا کرتے تھے کہ یہ کیسا رسول ہے؟ جو ہماری طرح کھانے پینے کا محتاج اور بیوی بچوں والا ہے۔ اس اعتراض کا جواب سورۃ یونس کی ابتدا میں یوں جواب دیا گیا کہ لوگوں کو اس بات پر تعجب ہوا ہے کہ انہی میں سے ایک شخص پر ہم نے کتاب نازل کی ہے حالانکہ اس میں تعجب کی بات نہیں بلکہ اس میں ایمان لانے والوں کے لیے خوشی اور آسانی کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہی میں سے ایک شخص کو رسول بنایا تاکہ ایمان لانے اور اس پر عمل کرنے والوں کے لیے آسانی اور خوشخبری ہو آپ (ﷺ) کو خوشخبری سنانے والا بناکر بھیجا گیا ہے۔ ( یونس :3) سورۃ آل عمران آیت : 164میں ارشاد ہے کہ یہ تو اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر بڑا احسان فرمایا ہے کہ انہی میں سے ایک شخصیت کو رسول بنایا ہے۔ سورۃ التوبۃ آیت : 128میں فرمایا اے لوگو! تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک رسول آیا ہے جسے تمہاری تکلیف بڑی گراں گزرتی ہے اور تمہارے ایمان لانے کے بارے میں وہ بڑی آرزو رکھتا ہے اور ایمان لانے والوں کے ساتھ نہایت شفقت کرنے والا، مہربان ہے۔ قرآن مجید کا دوسرا جواب : ﴿قُلْ لَوْ کَانَ فِی الْأَرْضِ مَلَآئِکَۃٌ یَمْشُوْنَ مُطْمَئِنِّیْنَ لَنَزَّلْنَا عَلَیْہِمْ مِنَ السَّمَآءِ مَلَکًا رَّسُوْلًا﴾ [ بنی اسرائیل :95] ” اگر زمین میں بسنے والے فرشتے ہوتے تو اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے لیے فرشتہ ہی نبی بنا کر بھیجتا۔“ تیسرا جواب : ﴿وَمَآ أَرْسَلْنَا قَبْلَکَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ إِلَّآإِنَّہُمْ لَیَأْکُلُوْنَ الطَّعَامَ وَیَمْشُوْنَ فِی الْأَسْوَاقِ﴾ [ الفرقان :20] ” اے پیغمبر! ہم نے آپ سے پہلے جتنے بھی رسول بھیجے وہ سب کے سب کھانا کھاتے اور بازاروں میں چلا پھرا کرتے تھے یعنی ایک چلتے پھرتے انسان ہی ہوا کرتے تھے۔“ جہاں تک کفار کے دوسرے اعتراض کے جواب کا معاملہ ہے کہ آپ ان کے لیے کوئی معجزہ نازل کریں اس کا بھی قرآن مجید نے بارہا دفعہ تفصیلی جواب دیا ہے۔ یہاں صرف اتنا ارشاد فرمایا کیونکہ پیغمبر ایک انسان ہوتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر نبی کے بس کی بات نہیں کہ وہ جب چاہے اور جس طرح کا چاہے لوگوں کے سامنے معجزہ پیش کرسکے۔ آپ (ﷺ) پر اعتراض کرنے والوں کو یہ خبر ہونی چاہیے کہ ہر دور کے لیے ایک کتاب ہے۔ جس میں اللہ تعالیٰ جو چاہے مٹا دیتا ہے اور جو چاہے بر قرار رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے پاس ام الکتاب ہے۔ جو لوح محفوظ ہے۔ اس میں ہر چیز پوری تفصیل کے ساتھ اس کے پاس لکھی ہوئی ہے۔ کچھ باتوں کو مٹانے اور کچھ کو برقرار رکھنے کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں۔ 1۔ کراماً کا تبین ہر انسان کے ہر قول وفعل کو لکھتے جارہے ہیں یہاں تک کہ کوئی انسان دل ہی دل میں کسی بات پر خوش ہوتا ہے تو اس کے چہرے پر عیاں ہونے والے خوشی کے اثرات کو بھی کراماً کا تبین ضبط تحریر میں لے آتے ہیں۔ گویا کہ انسان جو بھی اچھے برے، چھوٹے موٹے کام کرتا ہے کراما کا تبین اس کا مسلسل اندراج کر رہے ہوتے ہیں۔ جو جمعرات کے دن اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ جس کے چاہتا ہے گناہ معاف کردیتا ہے اور کچھ گناہ ایسے ہیں جو بر قرارر کھے جاتے ہیں حتی کہ جن کا کرنے والا اپنے رب کے حضور توبہ کرلے۔ تاہم سب کچھ اللہ تعالیٰ کے ہاں محفوظ ہے۔ 2۔ دوسرا مفہوم اہل علم نے یہ لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس بات کا پورا پورا اختیار ہے کہ وہ اپنے احکام یعنی اپنی طرف سے نازل کردہ کتاب سے جس حکم کو چاہے ختم کردے اور جسے چاہے باقی رہنے دے۔ پیغمبر کو اس میں کسی قسم کے ردّو بدل کا ذرہ برابر اختیار نہیں۔ ( تفصیل کے لیے دیکھیں فہم القرآن جلد اول صفحہ :183) (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ () قَالَ إِنَّ أَعْمَالَ بَنِیْٓ آدَمَ تُعْرَضُ کُلَّ خَمِیْسٍ لَیْلَۃَ الْجُمُعَۃِ فَلاَ یُقْبَلُ عَمَلُ قَاطِعِ رَحِمٍ) [ رواہ أحمد وہوحدیث حسن ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو فرماتے ہوئے سنا آپ نے فرمایا یقیناً انسان کے اعمال جمعرات کو یعنی جمعہ کی شام کو پیش کیے جاتے ہیں۔ پس رشتہ داری توڑنے والے کے اعمال قبول نہیں کیے جاتے۔“ مسائل: 1۔ آپ (ﷺ) سے پہلے بھی رسول مبعوث کیے گئے۔ 2۔ تمام انبیاء (علیہ السلام) رشتے، ناطے رکھتے تھے۔ 3۔ اللہ کے حکم کے بغیر کوئی رسول معجزہ نہیں دکھا سکتا تھا۔ 4۔ اللہ تعالیٰ جس حکم کو چاہے مٹا دے اور جس کو چاہے برقرار رکھے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ کے پاس سب کچھ لکھا ہوا اور محفوظ ہے : 1۔ اللہ تعالیٰ جس حکم کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جس حکم کو چاہتا ہے باقی رکھتا ہے اور اسی کے پاس محفوظ کتاب ہے۔ (الرعد :39) 2۔ اور ہم قیامت کے دن لکھا ہوا اعمالنامہ انسان کے سامنے کردیں گے اور ہر کوئی اسے کھلا ہوا دیکھ لے گا۔ (بنی اسرائیل :13) 3۔ کیا تم نہیں جانتے کہ جو کچھ آسمان و زمین میں ہے اللہ اس کو جانتا ہے۔ تمام چیزیں لکھی ہوئی ہیں۔ (الحج :70) 4۔ تمہیں جو بھی تکلیف پہنچتی ہے وہ لکھی ہوئی ہے۔ (الحدید :22) 5۔ یہ ہمارا لکھا ہوا ہے جو ٹھیک ٹھیک بول رہا ہے تم جو کچھ بھی کرتے تھے ہم لکھوائے جاتے تھے۔ (الجاثیۃ: 29) 6۔ وہ کہیں گے ہائے افسوس یہ اعمال نامہ کیسا ہے جس میں ہر چھوٹی بڑی بات موجود ہے۔ (الکہف :49)