كَذَٰلِكَ أَرْسَلْنَاكَ فِي أُمَّةٍ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهَا أُمَمٌ لِّتَتْلُوَ عَلَيْهِمُ الَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَهُمْ يَكْفُرُونَ بِالرَّحْمَٰنِ ۚ قُلْ هُوَ رَبِّي لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ مَتَابِ
ہم نے اسی طرح آپ کو ایسی قوم کے لیے رسول (٢٦) بنا کر بھیجا ہے جن کے پہلے بہت سی قومیں گزر چکی ہیں، تاکہ آپ انہیں وہ قرآن پڑھ کر سنائیں جو ہم نے آپ کو بذریعہ وحی دیا ہے، اور وہ لوگ نہایت رحم کرنے والے اللہ کی ناشکری کرتے ہیں، آپ کہہ دیجیے کہ وہی میرا رب ہے اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے، میں نے اسی پر بھروسہ کیا ہے اور اسی کی طرف مجھے لوٹنا ہے (یا وہی میرا ملجا و ماوی ہے)
فہم القرآن : ربط کلام : ہر دور کے منکرین حق کا ایک جیسا انداز اور سوچ۔ اس فرمان کی ابتداء ” کذ لک“ کے الفاظ سے کی گئی ہے جس کا مفہوم یہ ہے ” مانند“ اور ” اس جیسا“۔ یعنی جس طرح کا وطیرہ اہل مکہ اور قرآن کے منکروں نے اختیار کیا ہے۔ اس جیسا پہلے زمانے کے کفار بھی اختیار کیے ہوئے تھے انہوں نے اپنے انبیاء (علیہ السلام) سے معجزات کا مطالبہ کیا۔ جب ان کے مطالبہ پر انبیاء کرام (علیہ السلام) نے انہیں من جانب اللہ معجزے دکھائے تو منکرین حق نے تسلیم ورضا کا رویہ اختیار کرنے کی بجائے انکار اور مخالفت کا رویہ اختیار کیا۔ یہ لوگ بالآخر دنیا میں ذلیل ہوئے اور قیامت کے دن انہیں شدید ترین عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اے رسول (ﷺ) ! آپ کو ہم نے ایسی امت کی طرف بھیجا ہے جس جیسی پہلے امتیں گزر چکی ہیں۔ آپ کو بھیجنے کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ ہم آپ کی طرف وحی کر رہے ہیں آپ من وعن پڑھ کر انہیں سناتے اور سمجھاتے جائیں۔ جس طرح پہلی امتوں کے لوگ انکار کرتے رہے آپ جن لوگوں کی طرف مبعوث کیے گئے ان میں بھی لوگ ” الرحمان“ کا انکار کرتے ہیں۔ آپ ان کے انکار پر شکست خور دہ اور دل گرفتہ ہونے کی بجائے انہیں صاف صاف فرمائیں۔ کہ تم بے شک ” ا لرحمٰن“ کا انکار کرو۔ میرا اسی پر بھروسہ ہے اور اس کے سوا کوئی معبودِ حق، حاجت روا اور مشکل کشا نہیں ہے۔ بالآخر اسی کی طرف سب نے پلٹ کر جانا ہے۔ اہل مکہ اللہ تعالیٰ کو معبود، مشکل کشا اور حاجت روا مانتے تھے مگر اس شرط کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ اختیارات اپنے سوا دوسروں کو بھی دے رکھے ہیں۔ جس بنا پر وہ بتوں کو خدا کا اوتار اور شریک سمجھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے مبارک نام ” ا لرحمٰن“ کا بالکل انکار کرتے تھے۔ جب انہیں کہا جاتا۔ اللہ ہی اور ” رحمٰن“ ہے اس ” الرحمٰن“ کو سجدہ کرو تو وہ کہتے، رحمن کون ہے کہ جسے ہم سجدہ کریں۔ ﴿وَإِذَا قِیْلَ لَہُمُ اسْجُدُوْا للرَّحْمٰنِ قَالُوْا وَمَا الرَّحْمٰنُ أَنَسْجُدُ لِمَا تَأْمُرُنَا وَزَادَہُمْ نُفُوْرًا﴾[ الفرقان :60] ” اور جب انھیں کہا جاتا ہے کہ رحمن کے لیے سجدہ کرو۔ وہ کہتے ہیں الرحمن کون ہے ؟ کیا ہم اسے سجدہ کریں جسے آپ سجدہ کرنے کا حکم دیتے ہیں اور ان کی نفرت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔“ وہ یہ بھی اعتراض کرتے تھے کہ اگر ہم، اللہ کے ساتھ اپنے معبودوں کو شریک کرتے ہیں تو آپ بھی ” رحمان“ کو اللہ کا شریک بناتے ہیں۔ قرآن مجید میں اس کی وضاحت کی گئی کہ اللہ کا دوسرا نام ” الرحمن“ ہے۔ اس لیے اللہ کو پکارو یا الرحمن کو، اسی کے بہترین نام ہیں۔ (بنی اسرائیل :110) مسائل: 1۔ پہلی امتوں کی طرف بھی رسول بھیجے گئے تھے۔ 2۔ نبی اکرم (ﷺ) کا کام لوگوں کے سامنے کتاب اللہ پڑھنا اور اس کی تفسیر کرنا تھا۔ 3۔ کافر ” الرحمن“ کا انکار کرتے ہیں۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ تفسیر بالقرآن : توکل علی اللہ کے فائدے : 1۔ ” اللہ“ کے سوا کوئی الٰہ نہیں میں اسی پر توکل کرتا ہوں اور مجھے اسی کی طرف پلٹنا ہے۔ (الرعد :30) 2۔ اللہ توکل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ (آل عمران :159) 3۔ جو شخص اللہ پر توکل کرتا ہے اللہ اس کے لئے کافی ہے۔ (الطلاق :3) 4۔ عمل کرنے والوں کے لیے بہتر اجر ہے جو صبر کرتے ہیں اور اللہ پر توکل کرتے ہیں۔ (العنکبوت :59)