وَهُوَ الَّذِي مَدَّ الْأَرْضَ وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنْهَارًا ۖ وَمِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ جَعَلَ فِيهَا زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ ۖ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ
اور اسی نے زمین کو پھیلایا (٣) اور اس پر پہاڑ قائم کیے اور نہریں جاری کیں اور اس میں تمام پھلوں کے جوڑے پیدا کیے، وہ رات کے ذریعہ دن کو ڈھانک دیتا ہے، بیشک ان تمام باتوں میں سوچنے والی قوم کے لیے نشانیاں ہیں۔
فہم القرآن : ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ میخوں کی مانند پہاڑ : ارضیات میں ” بل پڑنے“ (Folding) کا مظہر حالیہ دریافت شدہ حقیقت ہے۔ قشر ارض (Crust) میں بل پڑنے کی وجہ سے پہاڑی سلسلے وجود میں آئے ہیں۔ قشر ارض جس پرہم رہتے ہیں، کسی ٹھوس چھلکے کی طرح ہے، جب کہ کرۂ ارض کی اندرونی پرتیں، (Layers) نہایت گرم اور مائع ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زمین کا اندرون کسی بھی قسم کی زندگی کے لیے قطعًا غیر موزوں ہے۔ آج ہمیں یہ بھی معلوم ہوچکا ہے کہ پہاڑوں کی قیام پذیری (Stability) کا تعلق، قشر ارض میں بل پڑنے کے عمل سے بہت گہرا ہے۔ ماہرین ارضیات کا کہنا ہے کہ زمین کارداس (Radius) یعنی نصف قطر تقریباً 2035کلومیٹر ہے اور قشر ارض، جس پر ہم رہتے ہیں، اس کے مقابلے میں بہت پتلی ہے، جس کی موٹائی ٢ کلومیٹر سے لے کر 35کلومیٹر تک ہے۔ چونکہ قشر ارض بہت پتلی ہے، لہٰذا اس کے تھرتھرانے یا ہلنے کا امکان بھی بہت قوی ہے، اس میں پہاڑ خیمے کی میخوں کا کام کرتے ہیں جو قشرِارض کو تھام لیتی ہیں اور اسے قیام پذیری عطا کرتے ہیں۔ قرآن پاک میں بھی عین یہی کہا گیا ہے : ﴿اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ مِھٰدًا وََّالْجِبَالَ اَوْتَادًا۔﴾[ النباء : 6۔7] ” کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے زمین کو فرش بنایا اور پہاڑوں کو میخوں کی طرح گاڑ دیا۔“ یہاں عربی لفظ ” اوتاد“ کا مطلب بھی میخیں ہی نکلتا ہے، ویسی ہی میخیں جیسی کہ خیمے کو باندھے رکھنے کے لیے لگائی جاتی ہیں۔ ارضیاتی تہوں (Folds) یا سلوٹوں کی گہری پوشیدہ بنیادیں بھی یہی ہیں۔ Earth نام کی ایک کتاب ہے جو دنیا بھر کی کئی جامعات میں ارضیات کی بنیادی حوالہ جاتی نصابی کتاب کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کتاب کے مصنفین میں ایک نام ڈاکٹر فرینک پریس کا بھی ہے، جو 12سال تک امریکہ کی اکیڈمی آف سائنسز کے سربراہ رہے ہیں۔ اس کتاب میں وہ پہاڑوں کی وضاحت، کلہاڑی کے پھل جیسی شکل (Wedge Shape) سے کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ پہاڑ بذات خود ایک وسیع تر وجود کا ایک چھوٹا حصہ ہوتا ہے۔ جس کی جڑیں زمین میں بہت گہرائی تک اتری ہوتی ہیں۔ (ملاحظہ ہو : Earth از : پریس اور سلور ڈاکٹر فرینک پریس کے مطابق، قشر ارض کی پائیداری اور قیام پذیری میں پہاڑ نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پہاڑوں کے فائدے کی وضاحت کرتے ہوئے، قرآن پاک واضح طور پر یہ فرماتا ہے کہ انہیں اس لیے بنایا گیا ہے تاکہ یہ زمین کو لرز تے رہنے سے بچائیں : ﴿وَجَعَلْنَا فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَبِھِمْ﴾[ الانبیاء :31] ” اور ہم نے زمین میں پہاڑ جما دیے تاکہ وہ انہیں لے کر ڈھلک نہ جائے۔“ اسی طرح کے ارشادات سورۃ لقمان، آیت : 10اور سورۃ النحل اور آیت 15میں بھی وارد ہوئے ہیں۔ لہٰذا قرآن پاک کے فراہم کردہ بیانات جدید ارضیاتی معلومات سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہیں۔ پہاڑوں کو مضبوطی سے جماد یا گیا ہے : سطح زمین متعدد ٹھوس ٹکڑوں، یعنی ” پلیٹوں“ میں بٹی ہوئی ہے جن کی اوسط موٹائی تقریباً 100کلومیٹر ہے۔ یہ پلیٹیں، جزوی طور پر پگھلے ہوئے حصے کے اوپر گویا تیر رہی ہیں، اس حصے کو (Aesthenosphere) کہا جاتا ہے۔ پہاڑ عموماً پلیٹوں کی بیرونی حدود پر پائے جاتے ہیں۔ قشر ارض، سمندروں کے نیچے 5کلومیٹر موٹی ہوتی ہے، جب کہ خشکی پر اس کی اوسط موٹائی 35کلومیٹر تک ہوتی ہے البتہ پہاڑی سلسلوں میں قشر ارض کی موٹائی 80کلومیٹر تک جا پہنچتی ہے، یہی وہ مضبوط بنیادیں ہیں جن پر پہاڑ کھڑے ہیں۔ پہاڑوں میں برکات : اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کو صرف میخوں کے طور پر ہی نہیں بنایا بلکہ ان میں بے شمار فوائد رکھ دیے ہیں۔ پہاڑوں پر برف جمتی ہے جو اللہ کی طرف سے پانی ذخیرہ کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ پہاڑوں میں چشمے جاری ہوتے ہیں۔ جو صاف شفاف پانی کا وسیلہ ہیں۔ تمام دریاؤں کا آغاز پہاڑوں سے ہوتا ہے۔ پہاڑوں میں بے شمار قسم کی معدنیات پائی جاتی ہیں جو زمین کی پیداوار سے ہزاروں گناقیمتی ہیں۔ پہاڑوں میں سونے کے ذخائر اور بے شمار قسم کے قیمتی پتھر بھی پائے جاتے ہیں۔