قَالُوا إِن يَسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَّهُ مِن قَبْلُ ۚ فَأَسَرَّهَا يُوسُفُ فِي نَفْسِهِ وَلَمْ يُبْدِهَا لَهُمْ ۚ قَالَ أَنتُمْ شَرٌّ مَّكَانًا ۖ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا تَصِفُونَ
انہوں نے کہا، اگر اس نے چوری کی ہے تو اس کے پہلے اس کے ایک بھائی نے بھی چوری (٦٥) کی تھی، یوسف نے ان کی اس کذب بیانی کو اپنے دل میں ہی چھپائے رکھا اور اس کا اثر اپنے اوپر ظاہر نہیں ہونے دیا، اور دل میں کہا، تم کتنے برے لوگ ہو اور جو جھوٹ تم بول رہے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے۔
فہم القرآن : (آیت 77 سے 79) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ بنیامین کے سامان سے بادشاہ کا پیالہ برآمد ہونے پر بھائیوں کا رد عمل۔ سامان کی تلاشی لینے پر بنیامین کے سامان سے پیالہ نکلا۔ تلاشی لینے والوں نے کہا کہ اب بتائیں کہ ہمارا قیافہ صحیح نہیں نکلا؟ سب کو حضرت یوسف (علیہ السلام) کے سامنے پیش کیا گیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ براداران یوسف اس پر بنیابین کی طرف سے کوئی عذر اور معذرت کرتے۔ انہوں نے اس کے برعکس اپنے حسد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس نے چوری کی ہے تو اس سے پہلے اس کے حقیقی بھائی نے بھی چوری کی تھی۔ یہ ہمارا حقیقی بھائی نہیں ہے باقی ہم سگے بھائی ہیں۔ ہم میں کوئی بھی ایسی حرکت کرنے والا نہیں ہے۔ یہ دونوں بھائی ایسی حرکات کرلیتے ہیں۔ اس کی وجہ سے ہمیں شرمندگی اٹھانی پڑی ہے۔ نہ معلوم انہوں نے اس موقع پر کیا کیا باتیں کی ہوں گی کیونکہ ان کے دلوں میں ان دونوں کے بارے میں حسدو بغض کا ایک طوفان چھپا ہوا تھا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) بڑے حوصلے کے ساتھ ساری باتیں سنتے رہے اور اپنے دل میں کہا کہ تم خود برے لوگ ہو۔ تم مجھ پر چوری کا الزام لگار ہے ہو حالانکہ تم نے مجھ پر بڑی زیادتی کی تھی۔ حضرت یوسف چاہتے تو انہیں گرفتار کرلیتے اور ان سے ساری بات اگلواتے کہ تم نے کس طرح اپنے باپ کو دھوکا دے کر یوسف کو کنویں میں پھینکا تھا۔ اگر وہ انکار کرتے تو فرماتے کہ ظالمو! کیوں جھوٹ پر جھوٹ بولے جارہے ہو میں ہی یوسف ہوں۔ لیکن انہوں ایسا کرنے کی بجائے راز کو راز ہی رہنے دیا۔ بھائیوں نے جب دل کی بھڑاس نکال لی تو انہیں احساس ہوا کہ ہم نے معذرت کرنے کی بجائے نہ صرف بنیابین کوچور ثابت کردیا ہے بلکہ اس کے بھائی کو بھی چور بنا ڈالا ہے۔ اس کے بعد یوسف (علیہ السلام) سے عرض کرنے لگے۔ کہ اے بادشاہ سلامت! اس کا باپ بہت ہی کمزور اور بوڑھا ہے۔ اسے اس کے ساتھ بہت محبت ہے لہٰذا ہماری درخواست ہے کہ آپ اس کی جگہ ہم میں سے کسی ایک کو گرفتار کرلیں ہم نے دیکھا ہے کہ آپ بڑے ہی مہربان اور احسان کرنے والے ہیں۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اللہ کی پناہ! کہ ہم ایسے شخص کو گرفتار کریں کہ جس سے مال برآمد نہیں ہوا۔ ایسا کرنا تو بہت بڑی زیادتی ہوگی۔ ہم تو اس شخص کو پکڑیں گے جس سے ہم نے مال بر آمد کیا تھا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی احتیاط اور سمجھ داری کا اندازہ لگائیں کہ وہ یہ نہیں فرماتے کہ ہم چور کو پکڑیں گے۔ ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو کہتے ہوئے سنا کہ باپ کو بیٹے کے جرم میں قتل نہیں کیا جائے گا۔“ (مسند احمد) مسائل: 1۔ یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے یوسف (علیہ السلام) پر چوری کا الزام لگادیا۔ 2۔ مجرم کے بدلے کسی دوسرے کو سزا نہیں دی جاسکتی۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ ظالم کو ہدایت نہیں دیتا : 1۔ اللہ تعالیٰ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔ (آل عمران :57) 2۔ ظالموں کے لیے تباہی ہے۔ (نوح :28) 3۔ ظالموں کے لیے دردناک عذاب ہے۔ (الشورٰی :21) 4۔ ظالموں کے لیے ہمیشہ کا عذاب ہے۔ (الحشر :17)