وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُونِي بِهِ أَسْتَخْلِصْهُ لِنَفْسِي ۖ فَلَمَّا كَلَّمَهُ قَالَ إِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِينٌ أَمِينٌ
اور بادشاہ نے کہا، اسے میرے پاس لاؤ، میں اسے اپنا خالص صلاح کار (٤٨) بناؤں گا، پس جب ان سے بات کی تو کہا کہ تم آج سے ہمارے نزدیک صاحب مرتبہ اور قابل اعتماد ہو۔
فہم القرآن : (آیت 54 سے 55) ربط کلام : حضرت یوسف (علیہ السلام) کے ارشاد کے بعد بادشاہ وقت کی پیش کش۔ قرآن مجید کے مقدس انداز اور الفاظ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ مصر کے بادشاہ کی حضرت یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ یہ پہلی ملاقات تھی۔ جس میں اس نے آپ سے درخواست کی کہ میں آپ کو اپنے کاموں کے لیے مخصوص کرنا چاہتا ہوں۔ آج کے بعد آپ ہمارے نزدیک نہایت ہی قابل اعتماد اور مقرب ہوں گے۔ یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا کہ آپ مجھے ملک کے وسائل کی ذمہ داری سونپیں۔ یقیناً میں ان کے مصرف کو جانتا ہوں اور معاملات کی حفاظت کروں گا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے یہ دعویٰ اس لیے کیا تھا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ناصرف انھیں خوابوں کی تعبیر کا علم دیا تھا بلکہ دیگر معاملات کو سمجھنے اور ان کی تہہ تک پہنچنے کی صلاحیت بھی عطا فرمائی تھی۔ بائبل کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ مصر کے بادشاہ نے اپنے وزراء اور ملک کے زعماء سے پہلے ہی یہ طے کر رکھا تھا کہ یوسف (علیہ السلام) کو کلی اختیار دیے جائیں۔ جس کے لیے اس نے حضرت یوسف (علیہ السلام) سے یہ درخواست کی کہ میں اپنے لیے آپ کو مخصوص کرنا چاہتا ہوں۔ جس کا یہ مفہوم بھی لیا جا سکتا ہے کہ میری ذاتی طور پر درخواست ہے کہ ملک کو مستقبل کے بحران سے نکلالنے کے لیے آپ عملی طور پر بھی ہمارے ساتھ تعاون کریں۔ اس سے بادشاہ کی اپنی قوم کے ساتھ خیر خواہی اور حب الوطنی کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس پیش کش کے ردّ عمل میں حضرت یوسف (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ مجھے آپ ملک کے خزانوں کا اختیار دیں جسے انتظامی زبان میں وزیر خزانہ کہا جاسکتا ہے۔ میں اللہ کے فضل سے جانتا ہوں کہ معاشی بحران میں ملک کو کس طرح سنبھالادیا جاسکتا ہے۔ یہاں بہت سارے مفسرین نے لکھا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) وزیر خزانہ کے بجائے ملک کے تمام امور کے ذمہ دار بنائے گئے تھے۔ ان بزرگوں کا خیال ہے کہ بادشاہ نے صرف نام کے طور پر بادشاہی رکھی تھی۔ گویا کہ موجودہ پارلیمانی نظام کی طرح حضرت یوسف (علیہ السلام) ملک کے وزیر اعظم تھے۔ ثبوت کے طور پر وہ اسی سورت کی آیت 69، 76اور 56سے استدلال کرتے ہیں۔ جن میں حضرت یوسف (علیہ السلام) ملک کے کلی اختیارات کے مالک دکھائی دیتے ہیں۔ جبکہ قرآن مجید کے الفاظ سے یہ بالکل عیاں ہے کہ بادشاہ مصر نے اس موقعہ پر حضرت یوسف (علیہ السلام) کو ملک کے کلی اختیارات نہیں دیے تھے۔ ورنہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو بادشاہ کی پیش کش کے جواب میں یہ کہنے کی ضرورت نہ پیش آتی کہ آپ مجھے ملک کے وسائل کی تقسیم کار کا اختیار دیں جو آج کل کی انتظامی تقسیم کے مطابق وزارت خزانہ کا منصب بنتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائی تیسری مرتبہ اپنے والدین کے ساتھ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے پاس گئے تو اس وقت وہ مصر کے بادشاہ بن چکے تھے۔ مؤرخین کا خیال ہے کہ بادشاہ کے فوت ہونے کے بعد حضرت یوسف (علیہ السلام) ملک کے بادشاہ بنے تھے اور یہی بات قرآن مجید کے سیاق و سباق کے تناظر میں حقیقت کے زیادہ قریب لگتی ہے۔ جہاں تک اس بحث کا تعلق ہے، کہ یوسف (علیہ السلام) نے منصب کا خود مطالبہ کیا تھا قرآن مجید کے الفاظ سے بظاہر یہ بات ظاہر ہوتی ہے۔ لیکن اگر پچھلی بات کو ساتھ ملا کر اس بات کا مفہوم سمجھا جائے تو بات بالکل واضح ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے از خود مطالبہ نہیں کیا بلکہ منصب کی پیش کش کے جواب میں انہوں نے ملک و قوم کی خیر خواہی اور خواب کی تعبیر کو عملی جامہ پہنانے کے لیے یہ مطالبہ کیا کہ اگر آپ مجھے ہر صورت اعیان حکومت میں شامل کرنا چاہتے ہیں تو ملک و قوم کے لیے یہ مناسب ہوگا کہ مجھے وزارت خزانہ کا قلمدان سونپا جائے تاکہ مستقبل کے معاشی بحران سے ملک و قوم کو نکالنے کے لیے میں خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکوں۔ جہاں تک منصب کا مطالبہ کرنے کا معاملہ ہے ہماری شریعت میں ایسا مطالبہ ناجائز ہے۔ ممکن ہے کہ پہلی شریعتوں میں اس طرح کا مطالبہ کرناجائز ہو۔ (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) مَنْ وَلِیَ الْقَضَآءَ أَوْ جُعِلَ قَاضِیًا بَیْنَ النَّاسِ فَقَدْ ذُبِحَ بِغَیْرِ سِکِّیْنٍ) [ رواہ الترمذی : کتاب الأحکام باب مَا جَآءَ عَنْ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) فِی الْقَاضِی] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا۔ جس کو فیصلہ کرنے کا حق دیا گیا یا اسے لوگوں کے درمیان قاضی مقرر کیا گیا یقیناً وہ بغیر چھری کے ذبح کیا گیا۔“ (عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ ابْنِ سَمُرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ لِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) لَا تَسْأَلِ الْاِمَارَۃَ فَاِنَّکَ اِنْ اُعْطِیْتَھَا عَنْ مَّسْئَلَۃٍ وَّکِلْتَ اِلَیْہَاوَاِنْ اُعْطِیْتَھَا عَنْ غَیْرِ مَسْئَلَۃٍ اُعِنْتَ عَلَیْھا) [ متفق علیہ] ” حضرت عبدالرحمن بن سمرۃ (رض) بیان کرتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا، امارت کی خواہش نہ کرنا! کیونکہ اگر تیری خواہش پر امارت مل گئی تو تجھے تیرے حال پر چھوڑ دیا جائے گا۔ اگر بلا خواہش امارت تفویض کی گئی تو تیری معاونت کی جائے گی۔“ (عَنْ اَبِیْ ہُرِیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ اِنَّکُمْ سَتَحْرِصُوْنَ عَلَی الْاِمَارَۃِ وَسَتَکُوْنُ نَدَامَۃً یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فَنِعْمَ الْمُرْضِعَۃُ وَبِئْسَتِ الْفَاطِمَۃُ )[ رواہ البخاری : باب باب مَا یُکْرَہُ مِنَ الْحِرْصِ عَلَی الإِمَارَۃِ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی مکرم (ﷺ) نے فرمایا‘ عنقریب تم امارت کی خواہش کرو گے‘ حالانکہ قیامت کے دن امارت باعث ندامت ہوگی۔ اقتدار بھلا لگتا ہے‘ اقتدار سے محرومی دل خراش ہوتی ہے۔ جیسے دودھ پلانے والی بھلی لگتی ہے اور دودھ چھڑانے والی بری لگتی ہے۔“ قیامت کے دن منصب دار لوگوں کی حالت : (عَنْ اَبِیْ ذَرٍّ (رض) قَالَ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) اَ لَا تَسْتَعْمِلُنِیْ قَالَ فَضَرَبَ بِیَدِہٖ عَلٰی مَنْکِبِیْ ثُمَّ قَالَ یَآ اَبَا ذَرٍّ اِنَّکَ ضَعِیْفٌ وَّاِنَّھَا اَمَانَۃٌ وَّاِنَّھَا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ خِزْیٌ وَّنَدَامَۃٌ اِلَّامَنْ اَخَذَھَا بِحَقِّہَا وَاَدَّی الَّذِیْ عَلَیْہِ فِیْھَا) [ رواہ مسلم : باب کَرَاہَۃِ الإِمَارَۃِ بِغَیْرِ ضَرُورَۃٍ ] ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے کہا‘ کہ اے اللہ کے رسول (ﷺ) ! آپ مجھے کوئی عہدہ کیوں نہیں دیتے؟ آپ نے اپنا ہاتھ میرے کندھے پر مارتے ہوئے فرمایا‘ اے ابوذر! یقیناً تو کمزور آدمی ہے۔ اور یہ عہدہ امانت ہے جو بلا شبہ قیامت کے دن رسوائی اور ذلت کا باعث ہوگا‘ سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے اس کے حق کو سوچ سمجھ کر استعمال کیا۔ اور ذمہ داریوں کو صحیح طور پر نبھایا۔“ مسائل: 1۔ بادشاہ نے یوسف (علیہ السلام) کو اپنا مشیر بنانے کی پیشکش کی۔ 2۔ جیل سے نکلنے کے بعد یوسف (علیہ السلام) پہلے سے زیادہ معتبر اور معزز ہوگئے۔ 3۔ معاشیات کے ماہر شخص کو وزیر خزانہ بنا نا چاہیے۔