وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي ۚ إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي ۚ إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اور میں اپنے آپ کو خطاؤں سے پاک نہیں بتاتا ہوں (٤٧) بیشک انسان کا نفس برائی پر بہت زیادہ ابھارتا ہے، سوائے اس نفس کے جس پر میرا رب رحم کرے، بیشک میرا رب بڑا مغفرت کرنے والا، نہایت مہربان ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : حضرت یوسف (علیہ السلام) کی عاجزی کی انتہا۔ امانت و دیانت اور بے انتہاپاکدامنی کے باوجود حضرت یوسف (علیہ السلام) یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ مجھ سے غلطی نہیں ہو سکتی۔ فرماتے ہیں کہ غلطی تو ہر انسان سے ہو سکتی ہے۔ کیونکہ نفس امارہ انسان کو ہمیشہ برائی کی طرف کھینچتا ہے۔ برائی سے وہی شخص بچ سکتا ہے جس پر میرا رب مہربانی فرمائے۔ کیونکہ میرا رب غلطیاں معاف کرنے والا اور نہایت ہی رحیم و کریم ہے۔ اگلی آیات سے یہ بات مترشح ہو رہی ہے کہ جب حضرت یوسف (علیہ السلام) بادشاہ کے پاس پہنچے تو درباری رواج کے مطابق بادشاہ نے ان کا والہانہ استقبال کیا ہو۔ حکمرانوں اور اعلیٰ سرکاری افسران کو ملنے والے احباب جانتے ہیں کہ جونہی بڑے لوگوں کی کسی شخص پر خاص توجہ ہوتی ہے تو درباری اور چھوٹے درجے کے لوگ کس طرح اس کے سامنے بچھے جاتے ہیں۔ وہ شخص تو مطلق العنان بادشاہ تھا۔ اس نے جس عقیدت اور تپاک سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اپنے ہاں بلایا، یوسف (علیہ السلام) کو دیکھ کر بادشاہ کے حواریوں کی کیا کیفیت ہوگی۔ پھر جس حسن کردار کی گواہی کے ساتھ یوسف (علیہ السلام) نے جیل سے رہائی پائی اور یوسف (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے جس قدر بے مثال حسن و جمال عطا فرمایا تھا بڑے سے بڑا شاعر اور کہنہ مشق ادیب بھی اس کی منظر کشی نہیں کرسکتا۔ ظاہر ہے اس صورتحال میں ہر شخص حضرت یوسف (علیہ السلام) کے حسن و جمال اور ان کے کردار کو زبر دست خراج تحسین پیش کر رہا ہوگا۔ ہر آنکھ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے چہرۂ انور پر جمی ہوگی مگر حضرت یوسف (علیہ السلام) اس پر پھولنے اور اترانے کے بجائے دل ہی دل میں اپنے رب کا شکریہ ادا کرتے، آنکھیں جھکائے بڑے وقار کے ساتھ تشر یف فرما ہوئے۔ ہر شخص سوچتا ہوگا کہ نامعلوم یہ شخص کس طمطراق کے ساتھ گفتگو کرے گا ابھی لوگ سوچ ہی رہے ہوں گے کہ سیدنا یوسف (علیہ السلام) بڑی عاجزی کے ساتھ فرماتے ہیں۔ میں اپنی پاک بازی پر فخر نہیں کرتا۔ ﴿وَمَآ أُبَرِّءُ نَفْسِیْ إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَۃٌم بالسُّوْٓءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْ إِنَّ رَبِّیْ غَفُورٌ رَحِیْمٌ﴾ [ یوسف :53] ” اور میں اپنے نفس کو بری نہیں کرتا، بے شک نفس تو برائی کا حکم دینے والاہے۔ مگر جس پر میرا رب رحم فرمائے۔ یقیناً میرا رب بخشنے والا اور بہت رحم فرمانے والا ہے۔“ (عَنْ أَبِی سَعِیْدِنِالْخُدْرِیِّ (رض) قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) إِذَا قَامَ مِنَ اللَّیْلِ کَبَّرَ ثُمَّ یَقُوْلُ سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالَی جَدُّکَ وَلاآإِلَہَ غَیْرُکَ ثُمَّ یَقُوْلُ لاآإِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ ثَلاَثًا ثُمَّ یَقُول اللَّہُ أَکْبَرُ کَبِیْرًا ثَلاَثًا أَعُوذ باللَّہِ السَّمِیْعِ الْعَلِیمِ مِنَ الشَّیْطَان الرَّجِیْمِ مِنْ ہَمْزِہٖ وَنَفْخِہٖ وَنَفْثِہٖ)[ رواہ ابو داود : باب مَنْ رَأَی الاِسْتِفْتَاحَ بِسُبْحَانَکَ اللَّہُمَّ وَبِحَمْدِکَ] ” حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) جب رات کو قیام کرتے تو اللہ اکبر کہتے پھریہ دعاپڑھتے اے اللہ ! تو پاک ہے۔ میں تیری تعریف بیان کرتاہوں بابرکت ہے نام تیرا اور بلند ہے تیری شان تیری علاوہ کوئی معبود نہیں۔ پھر تین بار کہتے اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں پھر تین بار اللہ اکبر کہتے۔ اللہ کے نام کے ساتھ جو سننے والا اور جاننے والا ہے۔ میں شیطان مردود کے وسوسہ، پھونک اور اس کی چھیڑ چھاڑ سے پناہ طلب کرتا ہوں۔“ (عَنْ أَبِیْ بَکْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) دَعْوَاتِ الْمَکْرُوْبِ اللّٰہُمَّ رَحْمَتَکَ أَرْجُوْ فَلاَ تَکِلْنِیْ إِلٰی نَفْسِیْ طَرْفَۃَ عَیْنِ وَأَصْلِحْ لِیْ شَأْنِیْ کُلَّہُ لاَ إِلٰہَ إِلاَّ أَنْتَ )[ رواہ أبوداود : باب مایقول اذا اصبح] ” حضرت ابو بکر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (ﷺ) نے مضطرب کی دعا بیان کرتے ہوئے فرمایا اے اللہ ! میں تیری رحمت کا امیدوار ہوں مجھے میرے نفس کے سپرد نہ کر اور میرے تمام معاملات درست فرما تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں۔“ مسائل: 1۔ نفس امارہ انسان کو برائیوں پر ابھارتا ہے۔ 2۔ گناہوں سے وہی شخص بچ سکتا ہے جس پر اللہ رحم فرمائے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ گناہ معاف کرنے اور نہایت رحم فرمانے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن: نفس انسانی کی تین حالتیں : 1۔ نفس مطمئنہ۔ ہر حال میں مطمئن یعنی نیکی پر قائم رہنے والا نفس۔ (الفجر :27) 2۔ نفس لوّامہ۔ گناہ پر ملامت کرنے والا نفس۔ (القیامہ :2) 3۔ نفس امّارہ۔ گناہ پر ابھارنے والا نفس۔ (یوسف :53) (تفصیل کے لیے دیکھیے فہم القرآن ج 2، ص130)