قَالَ مَا خَطْبُكُنَّ إِذْ رَاوَدتُّنَّ يُوسُفَ عَن نَّفْسِهِ ۚ قُلْنَ حَاشَ لِلَّهِ مَا عَلِمْنَا عَلَيْهِ مِن سُوءٍ ۚ قَالَتِ امْرَأَتُ الْعَزِيزِ الْآنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ أَنَا رَاوَدتُّهُ عَن نَّفْسِهِ وَإِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ
بادشاہ نے پوچھا، تم عورتوں کا کیا واقعہ (٤٥) ہے، جب تم نے یوسف کو گناہ پر اکسایا تھا؟ انہوں نے کہا، بے عیب ہے اللہ کی ذات، ہم نے اس میں کوئی برائی نہیں پائی، عزیز کی بیوی نے کہا، اب حق کھل کر سامنے آگیا میں نے اسے گناہ پر اکسایا تھا اور وہ بالکل سچا ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اہلکار کا واپس جاکر بادشاہ کو حضرت یوسف (علیہ السلام) کا جواب بتلانا۔ اور بادشاہ کا ان عورتوں کو طلب کرنا۔ بادشاہ پہلے ہی خواب کی تعبیر اور اس کا حل جان کر حضرت یوسف (علیہ السلام) کی شخصیت اور صلاحیت سے بے حد متاثر ہوچکا تھا۔ جب اس کے اہلکار نے جاکر حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں بتلایا کہ وہ اس حالت میں جیل سے نکلنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو بادشاہ نے سوچا کہ ایسے شخص کو جیل میں رکھنا ملک و ملت کا نقصان کرنے کے مترادف ہے۔ اس لیے اس نے فی الفور ہاتھ کاٹنے والی عورتوں کو طلب کرکے ان سے استفسار کیا کہ مجھے ٹھیک ٹھیک بتاؤ تمہارے ہاتھ زخمی کرنے کا کیا سبب تھا؟ یہ عورتیں خطاکار تو تھیں کیونکہ انہوں نے اس وقت پروپیگنڈہ کرنے کے ساتھ مجلس میں یوسف (علیہ السلام) پر دباؤ ڈالا تھا کہ تجھے عزیز مصر کی بیوی کی بات مان لینی چاہیے۔ اس لیے بادشاہ کا غیظ و غضب دیکھ کر اپنے جرم کا اقرار کرتے ہوئے ان الفاظ میں یوسف (علیہ السلام) کی پاک دامنی کی گواہی دیتی ہیں۔ ﴿مَا عَلِمْنَا عَلَیْہِ مِنْ سُوْٓءٍ﴾[ یوسف :51] ” ہم نے اس میں کوئی برائی نہیں دیکھی۔“ جب باقی عورتوں نے بادشاہ کے سامنے یوسف (علیہ السلام) کی کھلے لفظوں میں صفائی پیش کی تو عزیز مصر کی بیوی کے پاس انکار کرنے کا کوئی چارہ کار باقی نہ تھا۔ لہٰذا اس نے کھلے الفاظ میں کہا کہ اب تو یہ حقیقت آشکارا ہوگئی ہے کہ میں نے ہی اسے اپنے لیے پھسلانے کی کوشش کی تھی۔ لیکن یوسف (علیہ السلام) نے انکار کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ کردار کا پکا اور گفتار کا سچاہے۔ ﴿ حصحص الحق﴾ حق کا پوری طرح واضح ہوجانا عرب اس طرح بھی بولتے ہیں۔ ” حصحص البعیر“ اونٹ نے پوری طرح زمین پر گھٹنے ٹیک دیے۔ عزیز مصر کی بیوی نے یہ الفاظ بول کر بتلایا کہ حق واضح ہوا۔ میں اس حقیقت کا اعتراف اور اقرار کرتی ہوں۔ ﴿ حاش للّٰہ﴾ کہ ہم نے کسی اعتبار سے بھی اس میں ذرہ برابر برائی اور بے حیائی نہیں دیکھی۔“ ” حَاشَ“” حَوْشٌ“ سے ہے۔ اس کے لغوی معنی کسی جانور کو گھیر کرلانا ہے۔ ﴿ حاش للّٰہ﴾کا دوسرامعنی ہے۔ لوگوں سے توجہ ہٹا کر اللہ ہی کی طرف متوجہ ہوجانا یعنی یوسف (علیہ السلام) اس موقعہ پر اپنے رب کی طرف متوجہ رہے۔ (عَنْ أبِی أمَامَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) یَطْبَعُ الْمُؤمِنُ عَلٰی الْخِلَالِ کُلِّہَا اِلَّا الْخِیَانَۃَ وَالْکِذْبَ) [ رواہ أحمد] ” حضرت ابو امامہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا مومن میں ہر قسم کی خرابی پائی جا سکتی ہے مگر خیانت اور جھوٹ نہیں پائے جا سکتے۔“ مسائل: 1۔ کسی پر الزام لگنے کی صورت میں ذمہ دار اتھارٹی کا فرض بنتا ہے کہ اس کی غیر جانبدرانہ انکوائری کرائے۔ 2۔ اپنے ہاتھ زخمی کرنے والی عورتوں اور عزیز مصر کی بیوی نے کھل کر حضرت یوسف (علیہ السلام) کی پاک دامنی کا اقرار کیا۔ 3۔ حقیقت واضح ہونے کے بعد آدمی کو اس کا برملا اقرار کرنا چاہیے بے شک اس کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ تفسیر بالقرآن: یوسف (علیہ السلام) نیک اور سچے پیغمبر تھے : 1۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو قوت فیصلہ اور علم عطا کیا تھا۔ (یوسف :22) 2۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) اللہ کے برگزیدہ بندے تھے۔ (یوسف :24) 3۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف کو خوابوں کی تعبیر کا علم عطا کیا تھا۔ (یوسف :36) 4۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) ہمیشہ سچ بولتے تھے۔ (یوسف :51) 5۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) امانت دار تھے۔ (یوسف :54) 6۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) بڑے ہی اچھے مہمان نواز تھے۔ (یوسف :59)