وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُونِي بِهِ ۖ فَلَمَّا جَاءَهُ الرَّسُولُ قَالَ ارْجِعْ إِلَىٰ رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ مَا بَالُ النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ ۚ إِنَّ رَبِّي بِكَيْدِهِنَّ عَلِيمٌ
اور بادشاہ نے کہا، اسے میرے پاس لاؤ (٤٤) پس جب ان کے پاس قاصد آیا، تو انہوں نے کہا، اپنے بادشاہ کے پاس واپس جاؤ، اور اس سے پوچھو کہ ان عورتوں کے بارے میں اسے کیا خبر ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے، بیشک میرا رب ان کے مکرو فریب کو خوب جانتا ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ بادشاہ کا خوش ہو کر سرکاری اہلکار کو رہائی کا پیغام دے کر جیل میں یوسف (علیہ السلام) کی خدمت میں بھیجنا۔ سرکاری اہلکار حضرت یوسف (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرتا ہے ” کہ اے الصدیق ! بادشاہ سلامت آپ کو طلب فرما رہے ہیں آپ کی رہائی کا حکم ہوچکا ہے۔ لہٰذا آپ میرے ساتھ تشریف لے چلیں۔“ کوئی عام قیدی ہوتا تو اس کی خوشی سے باچھیں کھل جاتیں اور وہ بادشاہ کے اہلکار کے ساتھ چل دوڑتا مگر یوسف (علیہ السلام) فرماتے ہیں ” آپ اپنے بادشاہ کے پاس واپس جائیں۔ اور اس سے پوچھیں کہ ان عورتوں کا کیا معاملہ ہے ؟ جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے۔ میرا رب تو یقیناً ان کے مکرو فریب اور سازش کو جاننے والاہے۔“ حضرت یوسف (علیہ السلام) یہاں بھی اعلیٰ ظرف ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ یہ نہیں فرمایا کہ عزیز مصر کی بیوی کا کیا معاملہ تھا۔ انہوں نے اس طرح کہنے کے بجائے عورتوں کے بارے میں جمع کا لفظ استعمال کیا۔ کیونکہ آپ ان کے گھر میں ایک عرصہ تک ٹھہرے تھے اس احسان مندی کی وجہ سے انہوں نے جمع کا لفظ استعمال کیا ہے۔ دوسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے، کہ عزیز مصر نے اپنی بیوی کی وجہ سے حضرت یوسف (علیہ السلام) سے اس وقت معذرت کرلی۔ (آیت39) لیکن جب عورتوں کے پراپیگنڈے کی وجہ سے معاملہ طول پکڑ گیا تو وہ یوسف (علیہ السلام) کو جیل بھیجنے پر مجبور ہوا۔ جس بنا پر حضرت یوسف (علیہ السلام) اس شخص کو فرماتے ہیں کہ واپس جا کر اپنے بادشاہ سے پوچھیے کہ ہاتھ کاٹنے والی عورتوں کا کیا معاملہ ہوا؟ یعنی جہاں تک میرے ” اللہ“ کا معاملہ ہے اسے تو پہلے ہی میری بے گناہی کا حال معلوم ہے مگر تمہارے رب (عزیز مصر) کو بھی میری رہائی سے پہلے اس معاملہ کی پوری تحقیق کر لینی چاہیے جس بنا پر مجھے جیل بھیجا گیا تھا۔ میں کسی شبہ اور بدگمانی کا داغ لیے ہوئے عوام کے سامنے نہیں آنا چاہتا، مجھے رہا کرنا ہے تو پہلے سر عام یہ ثابت کرنا ہوگا کہ میں بے قصور تھا۔ اصل قصوروار تمہاری سلطنت کے کارفرما تھے جنہوں نے اپنی بیگمات کی بداطواری کا خمیازہ، میری پاکدامنی پر ڈالا۔ اس مطالبے کو حضرت یوسف (علیہ السلام) جن الفاظ میں پیش کرتے ہیں ان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عزیز مصر اس پورے واقعہ سے پہلے ہی واقف تھا جو عزیز مصر کی بیوی کی دعوت کے موقع پر پیش آیا تھا بلکہ وہ ایسا مشہور واقعہ تھا کہ جس کی طرف اشارہ کرنا ہی کافی تھا۔ اس لیے حضرت یوسف (علیہ السلام) نے جوں کی توں حالت میں جیل سے نکلنے سے صاف انکار کر دیاتھا۔ اس فیصلہ سے ان کے کردار کی پختگی، پاک دامنی اور بصیرت کا پتا چلتا ہے۔ اگر وہ اسی طرح ہی جیل سے نکل کھڑے ہوتے تو ان کے دامن پاک پر لگے ہوئے جھوٹے دھبے کے کچھ نشان باقی رہ سکتے تھے۔ (عَنْ اَبی ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) نَحْنُ اَحَقُّ بالشَّکِّ مِنْ اِبْرَاھِیْمَ اِذْقَالَ رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰی وَیَرْحَمُ اللّٰہُ لُوْطًالَقَدْکَانَ یَأْوِیْ اِلٰی رُکْنٍ شَدِیْدٍ وَلَوْ لَبِثْتُ فِیْ السِّجْنِ طُوْلَ مَا لَبِثَ یُوْسُفُ لَاَجَبْتُ الدَّاعِیَ) [ رواہ البخاری : کتاب التفسیر] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا‘ ہم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے زیادہ شک کا حق رکھتے ہیں جب ابراہیم نے التجا کی تھی‘ اے میرے پروردگار مجھے دکھا کہ آپ کس طرح مردوں کو زندہ کرتے ہیں؟ حضرت لوط (علیہ السلام) پر اللہ کی رحمتیں ہوں۔ وہ بڑی قوت والے کی پناہ میں تھے۔ اگر میں قید خانے میں ہوتا تو حضرت یوسف (علیہ السلام) جتنا عرصہ رہے تو میں بلانیوالے کی دعوت فوراً قبول کرلیتا۔“ مسائل: 1۔ بادشاہ نے حالات سے مجبور ہوکرحضرت یوسف کو طلب کیا۔ 2۔ حضرت یوسف بڑے حوصلے والے تھے اس لیے انہوں نے قاصد کو واپس کردیا۔ 3۔ اعلیٰ ظرف لوگ کسی کی مجبوری سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔ 4۔ نازک معاملات میں آدمی کو جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ 5۔ اللہ ہر کسی کے مکرو فریب سے بخوبی آگاہ ہے۔