وَقَالَ لِلَّذِي ظَنَّ أَنَّهُ نَاجٍ مِّنْهُمَا اذْكُرْنِي عِندَ رَبِّكَ فَأَنسَاهُ الشَّيْطَانُ ذِكْرَ رَبِّهِ فَلَبِثَ فِي السِّجْنِ بِضْعَ سِنِينَ
اور ان دونوں میں سے جس کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ وہ نجات پاجائے گا اس سے کہا (٣٨) کہ اپنے بادشاہ سے میرے بارے میں بات کرنا، لیکن شیطان نے اس کے دماغ سے یہ بات بھلا دی کہ بادشاہ کے سامنے ان کا تذکرہ کرتا، اس لیے انہیں کئی سال تک جیل میں رہنا پڑا۔
فہم القرآن : ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ جس نے رہائی پانی تھی، خواب کی تعبیر بتلاتے ہوئے اسے حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اسے ایک پیغام دیا۔ جس کے بارے میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کو یقین تھا کہ یہ رہا ہوجائے گا۔ اسے فرمایا کہ جب تم رہا ہو کر تم اپنی ڈیوٹی پر جاؤ تو اپنے آقا کے سامنے میرے بے گناہ ہونے کا معاملہ پیش کرنا۔ اسے بتلانا کہ ایک بے گناہ اور پردیسی شخص اس طرح جیل کی صعوبتیں برداشت کر رہا ہے۔ جب وہ شخص رہا ہو کر اپنے منصب پر بحال ہوا تو وہ اس پیغام اور اپنے عہد کو اس طرح بھول گیا جیسے اس نے یہ بات سنی ہی نہ تھی کیونکہ اس کے ذہن سے شیطان نے اس بات کو بالکل فراموش کردیا۔ جس کے بارے میں قرآن مجید بتلاتا ہے کہ اسے یہ پیغام اور عہد شیطان نے بھلایا تھا۔ گویا کہ نسیان شیطان کی طرف سے ہوتی ہے۔ اس طرح یوسف (علیہ السلام) کئی سال تک جیل میں قید رہے۔ بعض علماء نے ” فانساہ“ کی ضمیر کا مرجع حضرت یوسف (علیہ السلام) کو قرار دیا ہے لیکن درست نہیں، حضرت یوسف (علیہ السلام) جن کے شب و روز ذکر الٰہی میں بسر ہو رہے تھے بلکہ دوسروں کو بھی یاد الٰہی کی تلقین کرنے میں مصروف رہتے تھے وہ اپنے رب کو کیسے فراموش کرسکتے ہیں۔ صحیح یہی ہے کہ اس کا مرجع وہ ساقی ہے جس کو یوسف (علیہ السلام) نے رہائی پانے اور اپنے منصب پر دوبارہ فائز ہونے کی خوشخبری دی تھی۔ ” سنین“ کا لفظ عربی گنتی کے اعتبار سے دس سال تک کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مفسرین کا خیال ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اس قیدی کے رہا ہونے کے بعد سات سال جیل میں گزارے۔ اس طرح ان کی قید نو یا دس سال بنتی ہے۔ قرآن مجید نے رہائی پانے والے کے بارے میں فرمایا ہے کہ اسے شیطان نے بھلا دیا تھا۔ اس کی دو وجوہات میری سمجھ میں آتی ہیں۔ 1۔ اس سے بھولنے والے کی صفائی پیش کرنا مقصود ہے کہ اس نے اپنے آقا کے سامنے حضرت یوسف (علیہ السلام) کا ذکر جان بوجھ کر نہیں چھوڑا تھا بلکہ اس کو شیطان نے بھلا دیا تھا۔ 2۔ شریعت کا بنیادی اصول یہ ہے کہ ہر قسم کی کوتاہی، غلطی اور کمزوری کا سبب شیطان ہوا کرتا ہے۔ اس لیے ہر قسم کی غلطی، کمزوری اور کوتاہی کی نسبت شیطان کی طرف کی جاتی ہے۔ اس شخص کے بھولنے کا سبب بیان کرتے ہوئے مستند مفسرین نے لکھا ہے۔ چونکہ حضرت یوسف (علیہ السلام) اللہ کے نبی تھے اس لیے ان کے مرتبہ اور شان کے منافی تھا کہ وہ بادشاہ کی خدمت میں عام آدمی کی طرح پیغام بھیجتے۔ وہ اللہ کے نبی اور انبیاء کی اولاد تھے اور اللہ تعالیٰ نے بڑے بڑے مشکل مقامات میں ان کی مدد اور رہنمائی فرمائی تھی۔ اس لیے انہیں ایک عام آدمی کی طرح یہ کام نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اس پاداش میں انہیں تقریباً سات، آٹھ، سال تک مزید جیل میں ہی رہنا پڑا۔ لیکن اس بات کے ساتھ اتفاق کرنا ضروری نہیں کیونکہ مصیبت سے نکلنے کے لیے تدبیر کرنا ہر کسی پر لازم ہے۔ جیسے حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اپنے بیٹوں کو نصیحت کی تھی کہ مصر کے ایک ہی دروازے سے داخل ہونے کی بجائے مختلف دروازوں سے داخل ہونا۔ ( یوسف :67) مسائل: 1۔ شیطان انسان کو بھول میں مبتلا کردیتا ہے۔ 2۔ یوسف (علیہ السلام) جیل میں کئی سال رہے۔ تفسیر بالقرآن : شیطان لوگوں کو پھسلاتا ہے : 1۔ شیطان نے قیدی کو حضرت یوسف کا تذکرہ کرنا بھلا دیا۔ (یوسف :42) 2۔ شیطان نے آدم اور حو اکو پھسلا دیا۔ (البقرۃ :36) 3۔ شیطان نے حضرت یوسف اور ان کے بھائیوں کے درمیان اختلاف ڈلوا دیا۔ (یوسف :100) 4۔ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ (یوسف :5) 5۔ شیطان کو اپنا دشمن سمجھ کر اس کی شیطنت سے بچنا چاہیے۔ (فاطر :6)