بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
میں شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان، بے حد رحم کرنے والا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم تعارف سورۃ یوسف : اس سورۃ مبارکہ کی ابتدا میں یہ فرما کر قرآن مجید کا تعارف کروایا گیا ہے کہ قرآن مجید ایسی کتاب ہے جو اپنا مدعا اور مفہوم کھلے انداز میں بیان کرتی ہے۔ جس کی تفسیر نہ بھی کی جائے تو انسان کی ہدایت کے لیے قرآن مجید کا متن ہی کافی ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ نے عربی زبان میں نازل فرمایا تاکہ لوگ اس پر غور و خوض کریں۔ بالخصوص عربی جاننے والوں کو اس پر ضرور غور کرنا چاہیے۔ اس سورۃ میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کی سیرت طیبہ، تاریخ اور واقعات کو نہایت ہی احسن انداز میں بیان کیا گیا ہے اور یہ وضاحت کردی گئی ہے کہ نزول قرآن سے پہلے اے پیغمبر آپ بھی یوسف (علیہ السلام) کی سیرت، تاریخ اور واقعات سے بے خبر تھے۔ جن لوگوں نے یوسف (علیہ السلام) اور ان کے بھائیوں کے بارے میں آپ سے استفسار کیا ہے۔ اگر وہ عقل سے کام لیں تو ان کے لیے اس واقعہ میں بہت ہی سامان عبرت ہے۔ اس واقعہ کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ یوسف (علیہ السلام) نے بچپن کی عمر میں خواب دیکھا۔ جس میں گیارہ ستارے اور شمس و قمر انہیں سجدہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے یہ خواب اپنے والد گرامی حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے سامنے بیان کیا۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کے رویہ کے پیش نظر یوسف (علیہ السلام) کو فرمایا کہ یہ خواب اپنے بھائیوں سے ذکر نہ کرنا کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ حسد میں آکر آپ کے خلاف کوئی سازش کریں۔ ساتھ ہی خواب کی تعبیر کی طرف اشارہ فرمایا کہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو نبوت عطا فرمانے کے ساتھ بالخصوص خوابوں کی تعبیر کا علم عنایت فرمائے۔ چنانچہ وہی ہوا جس کا خدشہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے ظاہر کیا تھا۔ یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے ایک سازش کے تحت حضرت یوسف (علیہ السلام) کو حضرت یعقوب (علیہ السلام) سے اجازت لے کر اپنے ساتھ لیا اور انہیں کنویں میں پھینک ڈالا۔ ایک راہگیر قافلے نے انہیں کنویں سے نکالا اور مصر کے بازار میں بیچ دیا۔ انہیں عزیز مصر نے خریدا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) اس کے گھر میں جوان ہوئے اور عزیز مصر کی بیوی نے انہیں بدکاری کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ لیکن حضرت یوسف (علیہ السلام) نے جیل کی کال کوٹھڑی میں جانا گوارا کرلیا مگر اپنی چادر عفت پر داغ نہ آنے دیا۔ ایک مدت کے بعد وقت کے بادشاہ کو ایک ایسا خواب آیا جس کی تعبیر مصر کے ارباب فکر و دانش بتلانے سے قاصر رہے۔ تب قید سے رہا پانے والے بادشاہ کا ایک ملازم جو قید میں حضرت یوسف کے ساتھ رہاتھا۔ اس نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی سیرت اور صلاحیت سے بادشاہ کو آگاہ کیا۔ بادشاہ سے اجازت لے کر حضرت یوسف (علیہ السلام) کی خدمت میں پہنچ کر خواب کی تعبیر پوچھی۔ جس سے بادشاہ کو یقین ہوگیا کہ میرے خواب کی یہی تعبیر ہے۔ خواب کی تعبیر جان کر بادشاہ اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے یوسف (علیہ السلام) کو قید سے بلوا کر وزیر خزانہ بنایا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے بہترین منصوبہ بندی سے ملک مصر کو معاشی بحران سے نکالا۔ اس دوران ملحقہ علاقوں میں بھی قحط پڑا۔ جس کے نتیجے میں ان کے بھائی غلہ لینے کے لیے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے پاس پہنچے۔ لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ جن سے غلہ کی درخواست کر رہے ہیں وہ ان کا بھائی ہے۔ دوسری مرتبہ آئے تو حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی سجھائی ہوئی تدبیر کے مطابق اپنے حقیقی بھائی بنیامین کو اپنے پاس رکھ لیا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے آپ کو بھائیوں کے سامنے ظاہر کیا جس سے ان کے بھائیوں نے ان سے معذرت کی۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے انہیں معاف فرماتے ہوئے انہیں اپنی قمیص عنایت کی اور کہا کہ اسے والد محترم کے چہرے پر رکھنا، انھوں نے ایسا ہی کیا جس سے یعقوب (علیہ السلام) کی بینائی لوٹ آئی۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے والدین اور بھائیوں کو اپنے پاس بلوایا جب ان کے والدین اور بھائی ان کے پاس پہنچے تو انہوں نے اس زمانے کی روایت کے مطابق یوسف (علیہ السلام) کو سجدہ کیا۔ اسی دوران حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے والد سے عرض کی والد محترم ! یہ اسی خواب کی تعبیر ہے جو بچپن میں میں نے آپ کے حضور عرض کیا تھا۔ اس واقعہ میں یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ اگر انسان صبر و حوصلہ کے ساتھ مشکلات کا سامنا کرے اور اپنے دامن کو گناہ کی آلودگی سے محفوظ رکھے تو کسی کا حسد اور سازش آدمی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ اس پر واضح اشارہ ہے کہ اے اہل مکہ تمھیں بھی یہ دن ضرور دیکھنا پڑے گا کہ تم بھی ایک دن جھکو گے اور اپنے مظالم پر محمد کریم (ﷺ) کے سامنے معافی کے خواستگار ہو گے۔ اللہ کی شان ٹھیک تھوڑے عرصہ کے بعد فتح مکہ کے موقعہ پر کائنات عالم نے یہ منظر دیکھا کہ مکہ کے بڑے بڑے سردار آپ (ﷺ) سے معافی کے خواستگار ہوئے اور آپ نے ان الفاظ سے انہیں معاف فرما کر یہ ثابت کیا کہ انبیاء کردار اور اخلاق کے حوالے سے ہمیشہ منفرد انسان ہوتے ہیں۔ ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ یہودیوں کے علماء کا ایک گروہ رسول اللہ (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہ تورات کے قاری تھے آپ (ﷺ) سورۃ یوسف کی تلاوت فرما رہے تھے انھوں نے اسے توراۃ کے مطابق پایا جس طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات نازل ہوئی تھی۔ ان علماء نے کہا اے محمد (ﷺ) آپ کو کس نے سکھلایا ہے ؟ آپ نے فرمایا میرے اللہ نے مجھے سکھلایا ہے۔ علماء کی جماعت نے تعجب کیا جب آپ سے اس بات کو سنا وہ یہودیوں کی طرف واپس آئے اور انھیں کہا کیا تم جانتے ہو اللہ کی قسم محمد (ﷺ) قرآن کو اس طرح پڑھتے ہیں جس طرح تورات نازل کی گئی تو کچھ لوگ ان کے ساتھ مل کر نبی (ﷺ) کے پاس آئے تو انھوں نے آپ کے اوصاف کو پہچان لیا اور مہر نبوت جو آپ کے کندھوں کے درمیان تھی اسے دیکھا اور آپ کو سورۃ یوسف کی قراءت کرتے ہوئے سنا۔ انھوں نے تعجب کیا اور کہا آپ کو کس نے سکھلایا ؟ آپ نے فرمایا مجھے اللہ نے سکھلایا اور اس وقت یہ آیت نازل ہوئی (یوسف اور اس کے بھائیوں کے واقعہ میں سوال کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں) جو ان کے معاملے کے متعلق سوال کرتا ہے یا ان کے متعلق جاننا چاہتا ہے تو اس وقت قبیلے کے وہ لوگ مسلمان ہوگئے۔“ [ رواہ البیھقی فی دلائل النبوۃ]