قَالُوا لَقَدْ عَلِمْتَ مَا لَنَا فِي بَنَاتِكَ مِنْ حَقٍّ وَإِنَّكَ لَتَعْلَمُ مَا نُرِيدُ
انہوں نے کہا، تم جانتے ہو کہ ہمیں تمہاری بیٹیوں (٦٥) کی کوئی خواہش نہیں ہے اور ہم جو چاہتے ہیں اس کا تمہیں خوب پتہ ہے۔
فہم القرآن : (آیت 79 سے 81) ربط کلام : اوباشوں کی بے انتہا بدمعاشی پر حضرت لوط (علیہ السلام) کی انتہا درجے کی پریشانی اور اپنی کمزوری پر حسرت کا اظہار۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے انہیں بہت سمجھایا مگر اوباش کہنے لگے کہ ہمیں آپ کی بیٹیوں سے کوئی سروکار نہیں۔ ہم جس کام کے لیے آئے ہیں۔ تو اچھی طرح جانتا ہے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) مہمانوں کے سامنے اپنی بے عزتی کو اس قدر محسوس کرتے ہیں کہ ان کی زبان سے بے ساختہ یہ الفاظ نکلے۔ کاش ان کے مقابلے میں میرے پاس طاقت ہوتی یا میں کسی مضبوط سہارے کی پناہ لیتا۔ قوم کی بدمعاشی پر حضرت لوط (علیہ السلام) کی بے بسی اور غم دیکھ کر ملائکہ نے انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا اے اللہ کے پیغمبر! آپ کو ان کی بدمعاشی سے ڈرنے اور اس صورت حال پر غم کھانے کی ضرورت نہیں۔ آپ حوصلہ رکھیں۔ ہمیں اللہ تعالیٰ نے اس لیے بھیجا ہے کہ آپ اور آپ کے ایماندار ساتھیوں کے سوا باقی سب کو تہس نہس کردیا جائے۔ جن میں آپ کی بیوی بھی شامل ہوگی۔ کیونکہ یہ سب کے سب برے ہیں۔ ( العنکبوت : 33۔34) اے لوط ! ہم اللہ کی طرف سے بھیجے گئے ملائکہ ہیں اس لیے یہ بدمعاش آپ تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ آپ رات کے پچھلے پہر اپنے ساتھیوں کو لے کر اس بستی سے نکل جائیں اور انمیں سے کوئی بھی پیچھے مڑ کر نہ دیکھے۔ آپ کی بیوی پر وہی عذاب نازل ہوگا جو بدمعاشوں پر رات کے پچھلے پہرصبح کے قریب نازل ہوگا۔ قرآن مجید کے الفاظ سے ظاہر ہو رہا ہے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) اس صورت حال سے اس قدر پریشان تھے کہ وہ پوچھتے ہیں کہ صبح کب ہوگی؟ حالانکہ ملائکہ نے انہیں عذاب کا ٹھیک ٹھیک وقت بتا دیاتھا کہ وہ صبح کے وقت نازل ہوگا اس کے باوجود حضرت لوط (علیہ السلام) پوچھتے ہیں کہ صبح کب ہوگی۔ جس پر ملائکہ عرض کرتے ہیں کہ اے اللہ کے محبوب پیغمبر صبح تو ہوا چاہتی ہے یہ بتلانے کے بعد ملائکہ نے بدمعاشوں کی آنکھیں مسخ کردیں۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کا انتہا درجے کی پریشانی اور گھبراہٹ میں یہ کہنا کہ کاش میرے پاس پناہ کے لیے مضبوط سہارا ہوتا۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے رسول محترم (ﷺ) نے فرمایا تھا کہ اللہ لوط (علیہ السلام) پر رحم فرمائے ان کے پاس تو اللہ کی ذات کا بہت بڑا سہارا تھا۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) نَحْنُ اَحَقُّ بالشَّکِّ مِنْ اِبْرَاھِیْمَ اِذْقَالَ رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰی وَیَرْحَمُ اللّٰہُ لُوْطًالَقَدْکَانَ یَأْوِیْ اِلٰی رُکْنٍ شَدِیْدٍ وَلَوْ لَبِثْتُ فِیْ السِّجْنِ طُوْلَ مَا لَبِثَ یُوْسُفُ لَاَجَبْتُ الدَّاعِیَ) [ رواہ البخاری : باب زیادۃ طمانینۃ القلب] حضرت ابوہریرہ (رض) ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا، ہم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے زیادہ شک کا حق رکھتے ہیں جب ابراہیم نے التجا کی تھی‘ اے میرے پروردگار مجھے دکھا کہ آپ کس طرح مردوں کو زندہ کرتے ہیں؟ حضرت لوط (علیہ السلام) پر اللہ کی رحمت ہو، وہ بڑی قوت والے کی پناہ میں تھے۔ اگر میں قید خانے میں حضرت یوسف (علیہ السلام) جتنا عرصہ رہتا‘ تو میں بلانے والے کی دعوت فوراً قبول کرلیتا۔