سورة ھود - آیت 69

وَلَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُنَا إِبْرَاهِيمَ بِالْبُشْرَىٰ قَالُوا سَلَامًا ۖ قَالَ سَلَامٌ ۖ فَمَا لَبِثَ أَن جَاءَ بِعِجْلٍ حَنِيذٍ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری (٥٦) لے کر آئے انہوں نے کہا، سلام علیکم ابراہیم نے کہا سلام علیکم پھر جلد ہی ایک بھنا ہوا بچھڑا لے کر آئے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 69 سے 70) ربط کلام : قوم ثمود کی تباہی کے بعد قوم لوط کا واقعہ مگر اس کے بیان کرنے سے پہلے ضمناً حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ایک واقعہ کا ذکر ضروری سمجھا گیا ہے۔ قوم لوط کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے فرشتے بھیجے گئے۔ مگر پہلے ان کو حکم دیا گیا کہ وہ ابراہیم (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوں۔ انہیں بیٹے اور پوتے کی خوشخبری سنائیں۔ جب یہ فرشتے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے سلام عرض کیا۔ جواباً سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) بھی ملائکہ کو سلام کہتے ہیں۔ خیرو عافیت پوچھنے کے بعد کوئی تاخیر کیے بغیر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) مہمان نوازی کے لیے بھنا ہوا بچھڑا پیش کرتے ہیں۔ لیکن دیکھا کہ مہمان کھانے کی طرف ہاتھ بڑھانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہ دیکھ کر سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) اپنے دل میں ان سے خوفزدہ ہوئے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی کیفیت بھانپ کر ملائکہ اپنے آپ کو ظاہر کرتے ہوئے تسلی دیتے ہیں کہ خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہم اللہ کی طرف سے قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں اور اپنے بھیجے جانے کا مقصد بیان کیا کہ اس قوم کو ملیا میٹ کیا جا رہا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ملائکہ سے خوفزدہ ہونے کے بارے میں اہل علم نے مختلف آراء کا اظہار کیا ہے۔ 1۔ اس زمانے میں چوروں اور ڈاکوؤں میں بھی یہ اخلاق ہوا کرتا تھا کہ جس گھر میں نقب لگانا ہوتی۔ اس کا پانی تک نہیں پیا کرتے تھے تاکہ نمک حرامی نہ ہوجائے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سمجھے کہ یہ مہمان کی بجائے ڈاکوہیں۔ 2۔ مہمانوں کی شکل میں ملائکہ کچھ دیر کے بعد قوم لوط کو تباہ کرنے والے تھے۔ اس لیے ان کے چہروں پر تلخی نمایاں تھی اور انہوں نے اب تک اپنا تعارف بھی نہیں کروایا تھا۔ جس وجہ سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ان سے خوفزدہ ہوئے۔ یہ مفسر کا اپنا استنباط ہے۔ جس کے ساتھ اتفاق کرنا اس لیے مشکل ہے کہ یہ فرشتے نہ صرف حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے مہمان بن کر آئے بلکہ وہ انہیں بیٹے اور پوتے کی خوشخبری بھی سناتے ہیں۔ اس لیے ان کے چہروں پر تلخی کے آثار نمایاں ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔ 3۔ ایک مفسّر کا استدلال ہے کیونکہ ملائکہ نے ابھی تک انہیں خوشخبری نہیں سنائی تھی اس لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) خوفزدہ ہوئے کہ تین ملائکہ کا جڑ کر آنا کسی خطرے کے سوا نہیں ہوسکتا۔ یہ استدلال اس لیے بے جوڑ نظر آتا ہے کہ قرآن مجید نے فرشتوں کا اپنے آپ کو ظاہر کرنے سے پہلے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا خوفزدہ ہونے کا ذکر کیا ہے۔ اسی بناء پر فرشتوں نے حضرت ابراہیم کو اپنا تعارف کرواتے ہوئے عرض کیا تھا کہ ہمارے کھانا نہ کھانے کی وجہ سے آپ کو خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے ہم تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ مہمانوں کے کھانانہ کھانے کی وجہ سے ابراہیم (علیہ السلام) شاید اس لیے خوفزدہ ہوئے تھے ممکن ہے کہ ہماری مہمان نوازی میں کوئی فرق رہ گیا ہو۔ کیونکہ کھانا چننے کے بعد اگر مہمان کھانے کی طرف ہاتھ نہ بڑھائے تو میزبان کو خواہ مخواہ تشویش لاحق ہوجاتی ہے۔ یہی حالت سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی ہوگی جس کے پیش نظر ملائکہ نے انہیں اپنا تعارف کرواتے ہوئے تسلی دی کہ کسی قسم کے فکر اور ہم سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ نوری مخلوق ہونے کی وجہ سے ہم کھانے پینے سے بے نیاز ہیں۔ اس واقعہ سے یہ حقیقت بھی نمایاں ہوتی ہے کہ اللہ کے پیغمبر بھی غیب نہیں جانتے۔ اگر سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) غیب جانتے ہوتے کہ یہ ملائکہ ہیں اور ہمیں بیٹے اور پوتے کی خوشخبری دینے کے لیے آئے ہیں تو انہیں ڈرنے کی بجائے خوش ہونا چاہیے تھا۔ لیکن افسوس اتنی واضح حقیقت ہونے کے باوجود ایک مفسر نے اس بات کو یوں توڑ مروڑ کر بیان کیا ہے۔ بعض صاحبان اپنی عادت سے مجبور ہو کر اس آیت سے حضرت ابراہیم کی بے علمی پر استدلال کرنے لگتے ہیں کہ دیکھو انہیں پتہ نہ چلا کہ یہ فرشتے ہیں۔[ ضیاء القرآن : ج 2، ص377] مہمان نوازی کی اہمیت : (عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الاْٰخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہٗ وَمَنْ کَانَ یُؤْمِنُ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الاْٰخِرِ فَلَا یُؤْذِ جَارَہٗ وَمَنْ کَانَ یُؤْمِنُ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الاْٰخِرِ فَلْیَقُلْ خَیْرًا اَوِلْیَصْمُتْ وَفِیْ رِوَایَۃٍ بَدْلَ الْجَارِ وَمَنْ کَانَ یُؤْمِنُ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الاْٰخِرِ فَلْیَصِلْ رَحِمَہٗ) [ رواہ البخاری : باب اکرام الضیف وخدمتہ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے مہمان کی عزت کرے۔ جو آدمی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف میں مبتلا نہ کرے اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔ ایک روایت میں پڑ وسی کے بجائے یہ ہے کہ جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ صلہ رحمی کرے۔“ مسائل : 1۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس فرشتے خوشخبری دینے کے لیے آئے۔ 2۔ سلام کا جواب سلام سے دینا چاہیے۔ 3۔ مہمان نوازی کرنا انبیاء ( علیہ السلام) کی سنت ہے۔ 4۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) فرشتوں کو نہ پہچان سکے۔ 5۔ نوری مخلوق کھانے پینے اور انسانی حاجات سے پاک ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا : 1۔ حضرت ابراہیم کو فرشتوں کے متعلق علم نہ ہوسکا۔ (ھود :69) 2۔ حضرت لوط فرشتوں کو نہ پہچان سکے۔ (ھود :77) 3۔ نبی اکرم نے فرمایا اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو میں بہت سی بھلائیاں جمع کرلیتا۔ (الاعراف :188) 4۔ حضرت نوح نے فرمایا کہ میں غیب نہیں جانتا۔ (ھود :31) 5۔ جنات غیب نہیں جانتے۔ (سبا :14) 6۔ اللہ کے سوا کوئی بھی غیب نہیں جانتا۔ (الانعام :59)