وَإِلَىٰ عَادٍ أَخَاهُمْ هُودًا ۚ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ ۖ إِنْ أَنتُمْ إِلَّا مُفْتَرُونَ
اور ہم نے ہود (٣٨) کو ان کے بھائی قوم عاد کے پاس رسول بنا کر بھیجا، انہوں نے کہا، اے میری قوم کے لوگو ! تم اللہ کی عبادت کرو، اس کے علاوہ تمہارا کوئی معبود نہیں ہے، تم لوگ اللہ پر صرف افترا پردازی کرتے ہو۔
فہم القرآن : (آیت 50 سے 51) ربط کلام : حضرت نوح (علیہ السلام) کے واقعہ کے بعد حضرت ھود (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا تذکرہ۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کا سب سے بڑا جرم اللہ کے ساتھ شرک کرنا تھا۔ قوم عاد شرک کے گھناؤنے جرم کے ساتھ کمزور لوگوں پر ظلم ستم کرنے والے تھے۔ یہ قوم تہذیب و تمدن کے اعتبار سے اپنے زمانے کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ قوم تھی۔ بڑے لینڈ لارڈ، باغات کے مالک اور پہاڑ تراش تراش کر عظیم الشان گھر تیار کرتے تھے۔ (الشعراء : 128تا134)۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ قدو قامت کے لحاظ سے دنیا میں ان کا کوئی ثانی نہیں پیدا کیا گیا۔ سورۃ الفجر : 8حضرت ھود (علیہ السلام) نے انہیں سمجھایا کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرو اور کمزوروں پر ظلم کرنے سے باز آجاؤ۔ اے میری قوم! میں اس کام کے بدلے تم سے کسی قسم کی ستائش اور صلہ نہیں چاہتا۔ میرا صلہ اس ذات کبریا کے پاس ہے۔ جس نے مجھے پیدا کیا ہے۔ میری مخالفت کرنے کی بجائے ٹھنڈے دل کے ساتھ سوچو! کہ اس دعوت میں میرا کیا مفاد اور تمہارا نقصان کیا ہے؟ میں تمہیں لوگوں پر ظلم کرنے اور غیر اللہ کی عبادت کرنے سے روکتا ہوں۔ جن کو تم بلاتے اور پکارتے ہو۔ وہ تو اللہ کے سوا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتے۔ جو تم ان کے بارے میں دعوے کرتے ہو اس کی کوئی بنیاد نہیں یہ سراسر جھوٹ اور بناوٹی باتیں ہیں۔ کیا تم سوچنے کے لیے تیار ہو؟ یہاں دو سوال پیدا ہوتے ہیں کہ عقیدہ کا فرق ہونے کے باوجود حضرت ھود (علیہ السلام) اور آگے چل کر حضرت صالح، حضرت شعیب (علیہ السلام) کو ان کی اقوام کا بھائی قرار دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ ظاہر ہے۔ یہ انبیاء اکرام (علیہ السلام) اپنی اپنی قوم میں سے تھے۔ یہاں اہل مکہ کو احساس دلایا گیا ہے۔ کہ جس طرح ان انبیاء کی اقوام نے اپنے انبیاء کے ساتھ ناروا سلوک کیا اور برا انجام دیکھا۔ اے اہل مکہ تم بھی دیکھ لو کہ یہ نبی جو رشتہ کے اعتبار سے تمہارا بھائی لگتا ہے اس کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہو۔ یاد رکھو تمہارا انجام قوم ثمود اور قوم صالح سے مختلف نہ ہوگا۔ دوسرا سوال یہ ابھرتا ہے کہ حضرت ھود، حضرت نوح اور دیگر انبیاء ( علیہ السلام) نے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی ذات کا تعارف کیوں نہیں کرایا۔ اس کی وجہ امام رازی یہ کہہ کر بیان کرتے ہیں کیونکہ تمام اقوام اللہ کو اللہ یعنی اپنا خالق، مالک، رازق مانتے تھے۔ لیکن ایک الٰہ نہیں مانتے تھے۔ جس بنا پر انبیاء ( علیہ السلام) نے اپنی دعوت کا آغاز اس بات سے کیا ہے۔ جس کا وہ انکار کرتے تھے اس کے بعد امام موصوف لکھتے ہیں کہ میں ترکی اور ہند میں گیا اور وہاں دیکھا کہ یہاں کے لوگ اللہ کو ایک ماننے کے باوجود بتوں کی عبادت کرتے ہیں۔ یہی حالت عاد، ثمودو قوم مدین کی تھی۔ تفصیل جاننے کے لیے سورۃ الاعراف کے 16رکوع کی تفسیر دیکھیں۔ مسائل : 1۔ قوم عاد کی طرف ھود (علیہ السلام) کو نبی بنا کر بھیجا گیا۔ 2۔ ھود (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو ایک اللہ کی عبادت کرنے کا حکم دیا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ہے۔ تفسیر بالقرآن: تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) کی دعوت : 1۔ حضرت ھودنے فرمایا اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ (ھود :50) 2۔ حضرت صالح نے اپنی قوم کو ایک رب کی عبادت کرنے کا حکم دیا۔ (ھود :61) 3۔ حضرت شعیب نے فرمایا اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے سواتمہارا کوئی معبود نہیں۔ (ھود :84) 4۔ حضرت ابراہیم نے اپنی قوم کو فرمایا اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اور اسی سے ڈرو۔ (العنکبوت :16) 5۔ حضرت عیسیٰ نے فرمایا بے شک میرا اور تمہارا پروردگار اللہ ہے اسی کی عبادت کرو۔ (مریم :36) 6۔ ہم نے ہر جماعت میں رسول بھیجے انہوں نے لوگوں کو کہا صرف ایک اللہ کی عبادت کرو۔ (النحل :36)