وَقِيلَ يَا أَرْضُ ابْلَعِي مَاءَكِ وَيَا سَمَاءُ أَقْلِعِي وَغِيضَ الْمَاءُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ وَاسْتَوَتْ عَلَى الْجُودِيِّ ۖ وَقِيلَ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظَّالِمِينَ
اور کہا گیا کہ اے زمین ! تو اپنا پانی پی جا (٣٢) اور اے آسمان ! تو بارش برسانا بند کردے، اور پانی خشک ہوگیا، اور اللہ کا حکم پورا ہوچکا، اور کشتی جودی پہاڑ پر رک گئی، اور کہہ دیا گیا کہ ظالموں کے لیے اللہ کی رحمت سے دوری لکھ دی گئی۔
فہم القرآن : ربط کلام : طوفان کا تھمنا اور کشتی کا ٹھہرنا۔ مؤرخین اور مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ سیلاب چالیس دن تک رہا۔ جس کی کیفیت یہ تھی کہ پانی سب سے بلند پہاڑ کی چوٹی سے بھی بیس فٹ اونچا بہتا رہا۔ علاقہ میں کوئی چیز زندہ نہ بچی گویا کہ زمین کو اچھی طرح شرک و کفر کی غلاظت سے دھودیا گیا۔ تب اللہ تعالیٰ نے حکم صادر فرمایا کہ : اے زمین پانی کو پی جا اور آسمان کو حکم ہوا کہ تھم جاؤ۔ اس طرح ظالم قوم کا صفایا ہوا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی کشتی جودی پہاڑ کی چوٹی پر لنگر انداز ہوئی۔ جودی پہاڑ کردستان کے علاقہ میں جزیرۂ ابن عمر کے شمال مشرقی جانب واقع ہے۔ بائبل میں اس کشتی کے ٹھہرنے کی جگہ ارارا ط بتائی گئی ہے جو آرمینیا کے ایک پہاڑ کا نام ہے جو ایک سلسلہ کوہستان کا نام بھی ہے۔ سلسلہ کوہستان کے معنی میں جس کو اراراط کہتے ہیں وہ آرمینیا کی سطح مرتفع سے شروع ہو کر جنوب میں کردستان تک چلتا ہے اور جبل الجودی اسی سلسلے کا ایک پہاڑ ہے جو آج بھی جودی ہی کے نام سے مشہور ہے۔ قدیم تاریخوں میں کشتی کے ٹھہرنے کی یہی جگہ بتائی گئی ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح سے ڈھائی سو برس پہلے بابل کے ایک مذہبی پیشوا بریاسس (Berasus) نے پرانی کلدانی روایات کی بنا پر اپنے ملک کی تاریخ لکھی ہے اس میں وہ کشتی نوح کے ٹھہرنے کا مقام جودی ہی بتاتا ہے۔ ارسطو کا شاگرد ابیڈینوس (Abydenus) بھی اپنی تاریخ میں اس کی تصدیق کرتا ہے۔ نیز وہ اپنے زمانہ کا حال بیان کرتا ہے کہ عراق میں بہت سے لوگوں کے پاس اس کشتی کے ٹکڑے محفوظ ہیں جنہیں وہ گھول گھول کر بیماروں کو پلاتے ہیں۔ یہ طوفان، جس کا ذکر یہاں کیا گیا ہے، عالمگیر طوفان تھا یا اس خاص علاقے میں آیا تھا جہاں حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم آباد تھی۔ یہ ایسا سوال ہے جس کا فیصلہ آج تک نہیں ہوا۔ اسرائیلی روایات کی بنا پر عام خیال یہی ہے کہ یہ طوفان تمام روئے زمین پر آیا تھا (پیدائش ٧: 7: 18۔24) مگر قرآن میں یہ بات نہیں کہی گئی۔ قرآن کے اشارات سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ بعد کی انسانی نسلیں انہی لوگوں کی اولاد سے ہیں جو طوفان نوح سے بچا لیے گئے تھے، لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ طوفان تمام روئے زمین پر آیا ہو، کیونکہ یہ بات اس طرح بھی صحیح ہو سکتی ہے کہ اس وقت تک بنی آدم کی آبادی اسی خطہ تک محدود رہی ہو جہاں طوفان آیا تھا، اور طوفان کے بعد جو نسلیں پیدا ہوئی ہوں وہ بتدریج تمام دنیا میں پھیل گئی ہوں۔ اس نظریہ کی تائید دوچیزوں سے ہوتی ہے۔ ایک یہ کہ دجلہ و فرات کی سرزمین میں تو ایک زبردست طوفان کا ثبوت نہیں ملتا جس سے کسی عالمگیر طوفان کا یقین کیا جا سکے۔ دوسری یہ کہ روئے زمین کی اکثر و بیشتر قوموں میں ایک طوفان عظیم کی روایات قدیم زمانے سے مشہور ہیں۔ حتی کہ آسٹریلیا، امریکہ اور نیو گنی جیسے دور دراز علاقوں کی پرانی روایات میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ کسی وقت ان سب قوموں کے آباء واجداد ایک ہی خطہ میں آباد ہوں گے جہاں یہ طوفان آیا تھا اور پھر جب ان کی نسلیں زمین کے مختلف حصوں میں پھیلیں تو یہ روایات ان کے ساتھ پھیل گئیں۔ (تفہیم القرآن، ج :2) بُعداً کا لغوی معنی ہے ہلاک ہونا۔ مرجانا۔ دور ہونا۔ اصطلاحاً اللہ کی رحمت سے دور ہونا مسائل : 1۔ زمین و آسمان اللہ تعالیٰ کے حکم کے پابند ہیں۔ 2۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی کشتی جودی پہاڑ پر ٹھہری۔ 3۔ ظالم لوگ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دھتکار دیئے جاتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن : ظالم دنیا اور آخرت میں اللہ کی رحمت سے دور ہوتے ہیں : 1۔ ظلم کرنے والے لوگ اللہ کی رحمت سے دور ہوگئے۔ (ھود :44) 2۔ اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔ (القصص :50) 3۔ ظالموں کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ (الشوریٰ:21) 4۔ بے شک اللہ ظالموں کو پسند نہیں فرماتا۔ (الشوریٰ :40) 5۔ ظالم ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ یہی ان کا بدلہ ہے۔ (الحشر :17) 6۔ اللہ تعالیٰ ظالموں کو پسند نہیں فرماتا۔ (آل عمران :140) 7۔ ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ (المائدۃ:72)