وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا ۗ وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ ۚ وَإِن كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلَّا عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ ۗ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ
اور اس طرح ہم نے تمہیں اے مسلمانو ! ایک معتد (٢٠٨) اور بہترین امت بنایا تاکہ تم لوگوں کے بارے میں گواہی (٢٠٩) دو، اور رسول تمہارے بارے میں گواہی دیں اور وہ قبلہ جس طرف آپ پہلے سے متوجہ ہوتے تھے، ہم نے اس لیے بنایا تھا تاکہ دیکھیں کہ کون ہمارے رسول کی اتباع کرتا ہے (٢١٠) اور کون الٹے پاؤں پھر جاتا ہے، اور اسے قبول کرنا بہت ہی بھاری گذر رہا تھا، سوائے ان لوگوں کے جنہیں اللہ نے ہدایت دی، اور اللہ ایسا نہیں کہ تمہارا سابق ایمان (وعمل) ضائع کردے، بے شک اللہ لوگوں کے لیے بہت ہی شفقت اور رحمت والا ہے
فہم القرآن : ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ مستقبل قریب میں تحویل قبلہ کی طرف اشارہ فرما تے ہوئے لفظ ” کَذٰلِکَ‘ ا ستعمال کیا ہے۔ اصل لفظ ” ذَالِکَ“ ہے جس میں حرف ” ک“ کا اضافہ فرمایا گیا ہے۔ اسے عربی زبان میں حرف تشبیہ کہا جاتا ہے‘ جس کا معنی’ مانند‘ جیسے ہے۔ یہاں اشارتاً یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ جس طرح جغرافیائی لحاظ سے تمہارا قبلہ زمین کے وسط میں واقع ہے اسی طرح ہی ہدایت اور فکر وعمل کے اعتبار سے تمہیں امت عدل اور وسط بنایا گیا ہے۔ محشر کے دن جب پہلی امتوں سے ان کے انبیاء کے بارے میں سوال ہوگا کہ انبیاء نے میرا پیغام آپ تک پہنچایا تھا یا نہیں؟ بعض اُمتیں واضح طور پر اپنے نبیوں کی جدوجہد کی نفی کردیں گی۔ اس کے بعد انبیاء (علیہ السلام) کو اپنی تائید کے لیے گواہ لانے کا حکم ہوگا۔ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کریں گے کہ ہماری گواہی امّتِ محمد یہ کے لوگ دیں گے۔ تب آپ {ﷺ}کی امت کے لوگ عرض کریں گے کہ یا الٰہی! یہ لوگ غلط بیانی کررہے ہیں ان کے انبیاء نے توتیرا پیغام ٹھیک ٹھیک ان تک پہنچایا تھا۔ (عَنْ أَبِیْ سَعِیْدِنِ الْخُدْرِیِّ {رض}قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ {ﷺ}یُدْعٰی نُوْحٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیُقَالُ لَہٗ ھَلْ بَلَّغْتَ فَیَقُوْلُ نَعَمْ فَیُدْعٰی قَوْمُہٗ فَیُقَالُ لَھُمْ ھَلْ بَلَّغَکُمْ فَیَقُوْلُوْنَ مَا اَتَانَا مِنْ نَّذِیْرٍ أَوْ مَآ أَتَانَا مِنْ أَحَدٍ قَالَ فَیُقَالُ لِنُوْحٍ مَنْ یَّشْھَدُ لَکَ فَیَقُوْلُ مُحَمَّدٌ وَأُمَّتُہٗ قَالَ فَذٰلِکَ قَوْلُہٗ ﴿وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّۃً وَّسَطًا﴾) [ مسند أحمد : کتاب باقی مسند المکثرین، باب : مسند أبی سعید الخدری] ” حضرت ابو سعید خدری {رض}بیان کرتے ہیں رسول اللہ {ﷺ}نے فرمایا روز قیامت نوح (علیہ السلام) کو بلا کر پوچھا جائے گا کہ کیا تو نے میرا پیغام پہنچا دیا تھا؟ وہ جواب دیں گے ہاں پھر ان کی قوم کو بلا کر پوچھا جائے گا کیا نوح (علیہ السلام) نے تمہیں تبلیغ کی اور میرا پیغام پہنچایاتھا۔ وہ کہیں گے ہمارے پاس تو ڈرانے والا کوئی بھی نہیں آیا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) سے کہا جائے گا آپ کی گواہی کون دے گا؟ وہ کہیں گے، محمد {ﷺ}اور اس کی امّت۔ آپ {ﷺ}نے فرمایا یہی اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ (اسی طرح ہم نے تمہیں امّتِ وسط بنایا ہے)۔“ امت محمدیہ امت عدل اور وسط ہے: اسی لیے اس امت کو عدل کا لقب عطا کیا گیا۔ کیونکہ عدالت میں عادل کی گواہی معتبر ہوا کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتا تو ہجرت مدینہ کے ابتدائی ایام میں تحویل قبلہ کا حکم دے سکتا تھا۔ لیکن ایسا اس لیے نہیں کیا گیا تاکہ تحویل قبلہ کے ذریعے لوگوں کو آزمایا جائے کہ کون اللہ کا حکم سمجھ کر اپنا قبلہ تبدیل کرتا ہے کیونکہ ہدایت یافتہ لوگ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مقابلے میں حالات اور سمت نہیں دیکھا کرتے۔ تحویل قبلہ بہت بڑی آزمائش اور اقدام تھا۔ اللہ تعالیٰ کا کرم وفضل دیکھیے کہ بیت اللہ قبلہ مقرر فرمانے کے باوجود اسے سمت مقرر نہیں کیا گیا بلکہ مسجد حرام کی جانب چہرے کرنے کا حکم دیا تاکہ قبلہ کی سمت متعین کرنے میں دقّت نہ اٹھانی پڑے۔ رسول اللہ {ﷺ}نے اس میں اور وسعت کرتے ہوئے فرمایا : (بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قِبْلَۃٌ) [ رواہ الترمذی : کتاب الصلوۃ] ” قبلہ مشرق ومغرب کے درمیان ہے۔“ تحویل قبلہ کے بارے میں فرمایا جارہا ہے کہ بے شک یہ بڑا مشکل مسئلہ اور مرحلہ ہے لیکن ان کے لیے معمولی کام ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت سے سرفراز فرمایا ہے۔ جہاں تک شہادت کا حق ادا کرنے کا معاملہ ہے آپ {ﷺ}نے اسے اس طرح ذمہ داری اور شاندار طریقہ سے ادا کیا کہ امّت کا ایک ایک فرد پکار اٹھا کہ اے رسول {ﷺ}! آپ نے کمال طریقے سے یہ حق ادا فرمادیا ہے۔ لہٰذا اب امّت کا فرض ہے کہ وہ اس ذمہ داری میں کوتاہی نہ کرے۔ آپ (ﷺ) نے ابلاغ کا حق ادا کردیا ہے: (عَنْ أَبِیْ بَکْرَۃَ {رض}قَالَ خَطَبَنَا النَّبِیُّ {ﷺ}یَوْمَ النَّحْرِ فَإِنَّ دِمَآئَکُمْ وَأَمْوَالَکُمْ عَلَیْکُمْ حَرَامٌ کَحُرْمَۃِ یَوْمِکُمْ ھٰذَا فِیْ شَھْرِکُمْ ھٰذَا فِیْ بَلَدِکُمْ ھٰذَا إِلٰی یَوْمِ تَلْقَوْنَ رَبَّکُمْ أَلَا ھَلْ بَلَّغْتُ قَالُوْا نَعَمْ۔۔) [ رواہ البخاری : کتاب الحج، باب الخطبۃ أیام منی] ” حضرت ابو بکرہ {رض}بیان کرتے ہیں نبی {ﷺ}نے حج کا خطبہ دیتے ہوئے فرمایا یقیناً تمہارے خون اور تمہارے مال تم پر ایسے ہی حرام ہیں جیساکہ تمہارے لیے آج کا دن، مہینہ اور یہ شہر قیامت تک کے لیے حرام ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کیا میں نے اللہ تعالیٰ کا پیغام تم تک پہنچا دیا ہے؟ تو لوگوں نے جواب دیا ہاں۔“ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے صفت رؤف کا ذکر فرما کر مخلص اور تابعدار بندوں کو تسلی دی ہے کہ مخالف جس قدر چاہیں پروپیگنڈہ کریں تمہاری پہلی نمازیں ہرگز ضائع نہیں ہوں گی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ انتہائی رحم اور شفقت فرمانے والا ہے۔ اَلرَّءُ وْفَ: کہتے ہیں جو کسی کو نقصان سے بچا کر مزید نوازنے والا ہو۔ یہاں نماز اور ایمان کو باہم مترادف قرار دیا گیا ہے۔ نماز کی اہمیت سمجھنے کے لیے رسول اللہ {ﷺ}کا ارشاد ملاحظہ فرمائیں : (بَیْنَ الرَّجُلِ وَبَیْنَ الشِّرْکِ وَالْکُفْرِ تَرْکُ الصَّلٰوۃِ) [ رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب بیان إطلاق إسم الکفر علی من ترک الصلاۃ] ” مسلمان اور کفر و شرک کے درمیان ترک نماز کا فرق ہے۔“ مسائل : 1۔ آپ {ﷺ}کی امت معزز اور عدل کرنے والی ہے۔ 2۔ یہ امت فکر و عمل کے لحاظ سے معتدل قرار پائی ہے۔ 3۔ امّتِ محمدیہ پہلی امتوں پر اور آپ {ﷺ}اس امت پر گواہ ہوں گے۔ 4۔ تحویل قبلہ بہت بڑی آزمائش اور اتباع رسول کی کسوٹی ہے۔ 5۔ نماز اور ایمان باہم مترادف ہیں۔ 6۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو بخشنے والے اور انتہائی مہربان ہیں۔ تفسیر بالقرآن : شہادتِ حق امت محمدیہ کا اعزاز : 1۔ نبی {ﷺ}کی امت تمام امتوں میں امّتِ خیر قرارپائی۔ (آل عمران :110) 2۔ آپ {ﷺ}کی امت نے امّتِ وسط کا اعزاز پایا۔ (البقرۃ:143) 3۔ آپ کی امت کو داعی الی الخیر کا منصب ملا۔ (آل عمران :104) 4۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو شاہد، مبشر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے۔ (الفتح :8) 5۔ آپ {ﷺ}کا منصب لوگوں پر شہادت قائم کرنا ہے۔ (المزمل :15) 6۔ آپ {ﷺ}اور دوسرے انبیاء {علیہ السلام}اپنی اپنی امت کے بارے میں گواہی دیں گے۔ (النساء :41) 7۔ امت محمدیہ لوگوں پر گواہی دے گی۔ (البقرۃ:143)