إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَأَخْبَتُوا إِلَىٰ رَبِّهِمْ أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
بیشک جو لوگ ایمان (١٧) لائے اور عمل صالح کیا اور اپنے رب کے حضور خشوع و خضوع اختیار کیا وہی لوگ جنت والے ہوں گے، اس میں ہمیشہ کے لیے رہیں گے۔
فہم القرآن : (آیت 23 سے 24) ربط کلام : ملعون لوگوں کے بعد نیک مخلصین کا ذکر۔ قرآن مجید حسب دستور دو قسم کے لوگوں اور کرداروں کے درمیان تقابل بیان کرتا ہے۔ کیا اندھے اور بہرے، دیکھنے والے اور سننے والے برابر ہوسکتے ہیں۔ حقائق نہ دیکھنے اور نہ سننے کی وجہ سے اندھوں اور بہروں کا انجام جہنم کی آگ ہے۔ جو ناقابل تلافی نقصان ہے۔ اتنا فرق ہونے کے باوجود لوگ نصیحت حاصل نہیں کرتے۔ اللہ کے حضور عاجزی کرنیوالے لوگ اپنے رب کی رضا کے لیے حقیقت کو بغور دیکھتے اور سنتے ہیں۔ عاجزی کرنے والوں سے مراد اس پر عمل کرنے والے ہیں۔ جس کی تاکید اور وضاحت ایمان اور عمل صالح سے کردی ہے۔ ﴿اَخْبَتُوْٓا﴾ کا لغوی معنی ” عاجزی اختیار کرنا“ جس کا اجر جنت ہے اور اللہ کے حضور عاجزی کرنے والے جنت میں ہمیشہ رہیں گے۔ قرآن مجید باربار بتلاتا اور سمجھاتا ہے کہ ایمان کے ساتھ صالح عمل کرنا لازم ہے۔ ایمان اور عمل صالح کا اتنا گہرا تعلق ہے کہ یہ ایک دوسرے کے بغیر مکمل نہیں ہوتے۔ نہ ہی ایک دوسرے سے جدا ہو کر ان کی کوئی حیثیت رہتی ہے۔ جنت کی سجاوٹ : (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) الْجَنَّۃُ مَا بِنَاؤُہَا قَالَ لَبِنَۃٌ مِنْ فِضَّۃٍ وَلَبِنَۃٌ مِنْ ذَہَبٍ وَمِلاَطُہَا الْمِسْکُ الأَذْفَرُ وَحَصْبَاؤُہَا اللُّؤْلُؤُ وَالْیَاقُوتُ وَتُرْبَتُہَا الزَّعْفَرَانُ مَنْ یَّدْخُلْہَا یَنْعَمْ وَلاَ یَبْأَسْ وَیُخَلَّدْ وَلاَ یَمُوْتُ لاَ تَبْلَی ثِیَابُہُمْ وَلاَ یَفْنَی شَبَابُہُمْ) [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ الجنۃ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا جنت کی بناوٹ اس طرح ہے کہ ایک اینٹ چاندی کی اور ایک سونے کی اور اس کا گارا خوشبودار کستوری ہے۔ اس کے کنکر لؤلؤ اور یاقوت ہیں اور اس کی مٹی زعفران کی ہے جو اس میں داخل ہوگا وہ خوش و خرم ہوگا اسے کوئی تکلیف نہ ہوگی وہ اس میں ہمیشہ رہے گا اسے موت نہیں آئے گی کپڑے بوسیدہ نہیں ہوں گے اور نہ جوانی ختم ہوگی۔“ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللَّہِ (ﷺ) یُؤْتَی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِأَنْعَمِ أَہْلِ الدُّنْیَا مِنَ الْکُفَّارِ فَیُقَالُ اغْمِسُوْہُ فِی النَّارِ غَمْسَۃً فَیُغْمَسُ فِیْہَا ثُمَّ یُقَالُ لَہُ أَیْ فُلاَنٌ ہَلْ أَصَابَکَ نَعِیْمٌ قَطُّ فَیَقُوْلُ لاَ مَا أَصَابَنِی نَعِیْمٌ قَطُّ وَیُؤْتَی بِأَشَدِّ الْمُؤْمِنِینَ ضُرًّا وَبَلاَءً فَیُقَالُ اغْمِسُوْہُ غَمْسَۃً فِی الْجَنَّۃِفَیُغْمَسُ فِیْہَا غَمْسَۃً فَیُقَالُ لَہُ أَیْ فُلاَنٌ ہَلْ أَصَابَکَ ضُرٌّ قَطُّ أَوْ بَلاَءٌ فَیَقُوْلُ مَا أَصَابَنِی قَطُّ ضُرٌّ وَلاَ بَلاَءٌ )[ رواہ ابن ماجۃ: کتاب الزہد، باب صفۃ النار] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں فرمایا رسول اللہ (ﷺ) نے قیامت کے دن کفار میں سے دنیا کے خوشحال ترین آدمی کو لایا جائے گا اور حکم ہوگا اسے جہنم میں غوطہ دلواؤ۔ اسے غوطہ دیا جائے گا پھر اس سے پوچھاجائے گا کیا تجھے دنیا میں کبھی کوئی نعمت حاصل ہوئی ہے۔ وہ کہے گا نہیں مجھے کبھی کوئی نعمت نہیں ملی۔ سخت تکالیف پھر آزمائشوں میں مبتلا رہنے والے مومن کو لایا جائے گا کہا جائے گا اسے جنت کی ایک جھلک دکھلاؤ پھر اس سے پوچھاجائے گا۔ کیا تجھے کبھی کوئی تکلیف لاحق ہوئی ؟ وہ کہے گا میں کبھی بھی تکلیف و آزمائش میں مبتلا نہیں کیا گیا۔“ مسائل : 1۔ اللہ پر ایمان لانے والے، عمل صالح کرنے والے اور اپنے رب کی طرف جھکنے والے ہمیشہ جنت میں رہیں گے۔ 2۔ اندھا اور بینا برابر نہیں ہو سکتے۔ 3۔ بہرا اور سننے والا برابر نہیں ہوسکتے۔ 4۔ اللہ کی آیات کا انکار کرنے والے نقصان اٹھائیں گے۔ تفسیربالقرآن : نیک اور بد برابر نہیں ہوسکتے : 1۔ کیا اندھا اور بینا، بہرا اور سننے والا برابر ہوسکتے ہیں؟ (ہود :24) 2۔ اندھا اور دیکھنے والا، نیک اور بدبرابر نہیں ہوسکتے۔ (المومن :58) 3۔ مومن اور فاسق برابر نہیں ہو سکتے۔ (السجدۃ:18) 4۔ اللہ مجرموں اور مومنوں کو برابر نہیں رکھے گا۔ (القلم : 35۔36)