وَلَئِنْ أَذَقْنَا الْإِنسَانَ مِنَّا رَحْمَةً ثُمَّ نَزَعْنَاهَا مِنْهُ إِنَّهُ لَيَئُوسٌ كَفُورٌ
اور اگر ہم انسان کو اپنی رحمت کا مزہ چکھاتے ہیں پھر اسے اس سے چھین لیتے ہیں تو وہ ناامید (١٠) ہوجاتا ہے، اور ناشکری پر اتر آتا ہے۔
فہم القرآن : (آیت 9 سے 10) ربط کلام : جو لوگ اللہ تعالیٰ کے عذاب اور قیامت کو بھول جاتے ہیں ان کی طبیعت میں ناشکری اور فخروغرور پیدا ہوجاتا ہے۔ ایسے لوگوں کی حالت کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر ایسے آدمی کو ہم اپنی رحمت سے بہرہ ور کریں اور اس کے بعد اپنے کرم کا ہاتھ پیچھے ہٹائیں تو وہ حوصلہ کرنے کی بجائے ناشکری کا اظہار کرتا ہے۔ اگر تکلیف کے بعد اسے راحت اور خوشی عطا کریں تو وہ یہ کہتے ہوئے فخروغرور کا مظاہرہ کرتا ہے کہ میرے دکھ دور ہوگئے۔ گویا کہ اسے نعمت عطا ہو تو ناشکری کی صورت میں اور اس کا دکھ دور ہوجائے تو فخروغرور کی حالت میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے۔ اس طرح اللہ اور قیامت پر ایمان نہ ہونے کی وجہ سے نہ خوشی اسے اپنے رب کی طرف لاتی ہے اور نہ غم اسے اپنے رب کے قریب کرتا ہے۔ فخر اللہ تعالیٰ کی چادر ہے : (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) یَقُوْلُ اللَّہُ سُبْحَانَہُ اَلْکِبْرِیَآءُ رِدَآئِیْ وَالْعَظَمَۃُ إِزَارِیْ مَنْ نَازَعَنِیْ وَاحِدًا مِنْہُمَا أَلْقَیْتُہٗ فِیْ جَہَنَّمَ) [ رواہ ابن ماجۃ: باب البراء ۃ من الکبر التواضع] ” حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تکبر میری چادر ہے اور عظمت میرا ازار ہے جو ان میں سے کوئی ایک مجھ سے چھیننے کی کوشش کرے گا میں اس کو جہنم میں پھینک دوں گا۔“ شکرو کفر کا انجام : ﴿وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّکُمْ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَأَزِیْدَنَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ ﴾[ ابراہیم :7] ” اور جب تمہارے رب نے اعلان کیا اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں زیادہ دوں گا۔ اور اگر تم ناشکری کرو تو میرا عذاب بڑا سخت ہے۔“ ﴿اِنَّمَا یُوَفَّی الصَّابِرُوْنَ أَجْرَہُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ﴾[ الزمر :10] ” صبر کروگے تو اس کا بے حدوحساب اجرپاؤ گے۔“ مومن کا کردار : (عَنْ صُہَیْبٍ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) عَجَبًا لأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَہُ کُلَّہُ خَیْرٌ وَلَیْسَ ذَاکَ لأَحَدٍ إِلاَّ لِلْمُؤْمِنِ إِنْ أَصَابَتْہُ سَرَّاءُ شَکَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہُ وَإِنْ أَصَابَتْہُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہُ) [ رواہ مسلم : کتاب الزہد والرقائق، باب الْمُؤْمِنُ أَمْرُہُ کُلُّہُ خَیْرٌ] ” حضرت صہیب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا مومن کا معاملہ عجب ہے بے شک اس کے تمام کاموں میں بہتری ہے۔ مومن کے سوا ایسا کسی کے لیے نہیں ہے اگر مومن کو کوئی خوش کردینے والی چیز پہنچتی ہے تو وہ شکر ادا کرتا ہے یہ اس کے لیے بہتر ہوتا ہے اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے پس یہ بھی اس کے لیے بہتر ہوتا ہے۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ انسان کو اپنی نعمت دینے کے بعد چھین لے تو انسان ناامید اور ناشکرا ہوجاتا ہے۔ 2۔ انسان کوتکلیف کے بعد آسائش آئے تو فخر کرنا شروع کردیتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : انسانوں کی اکثریت اللہ تعالیٰ کی ناشکری ہوتی ہے : 1۔ اگر انسان کو اللہ رحمت دے کر چھین لے تو یہ مایوس اور ناشکرا ہوجاتا ہے۔ (ہود :9) 2۔ اگر انسان پر اس کے کرتوتوں کی وجہ سے مصیبت آجائے تو ناشکرا ہوجاتا ہے۔ (الشوریٰ:48) 3۔ بے شک انسان بڑا ہی ناانصاف اور ناشکرا ہے۔ (ابراہیم :34) 4۔ انسان بڑا ہی ناشکرا ہے۔ (بنی اسرائیل :100) 5۔ اللہ تعالیٰ انسانوں پر فضل فرماتا ہے لیکن ان کی اکثریت شکرادا نہیں کرتی۔ (یونس :60)