وَلَا تَدْعُ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ ۖ فَإِن فَعَلْتَ فَإِنَّكَ إِذًا مِّنَ الظَّالِمِينَ
اور اللہ کے سوا ان معبودوں کو نہ پکاریے جو آپ کو نہ فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان، اور اگر آپ نے ایسا کیا تو یقینا اس وقت آپ ظالموں میں سے ہوجائیں گے۔
فہم القرآن : (آیت 106 سے 107) ربط کلام : صرف ایک اللہ کی عبادت اس لیے بھی کرنا ہے کیونکہ اس کے سوا کوئی نفع و نقصان کا مالک نہیں نہ ہی اس کے علاوہ کوئی حاجت روا اور مشکل کشا ہے۔ توحید یہ ہے کہ اللہ کی ذات اور اس کی صفات میں کسی زندہ یا مردہ کو شریک نہ سمجھا جائے۔ یہ عقیدہ دین کی ابتداء اور انتہا ہے۔ اسے سمجھانے کے لیے اللہ تعالیٰ بار بار مختلف انداز اور الفاظ استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو حکم دیتا ہے کہ اس پر پکے ہوجاو۔ یہی دنیا میں انسان کی کامیابی اور آخرت کی فلاح کا راستہ ہے۔ اس عقیدہ کی اہمیت اور فرضیت کے لیے نبی (ﷺ) سے لے کر ہر انسان کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سوا نہ کسی کی عبادت کرے اور نہ ہی کسی کو اپنے نفع و نقصان کا مالک سمجھے۔ اسی سے انسان اور اللہ تعالیٰ کے درمیان رشتہ مضبوط ہوتا ہے۔ اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان ہر قسم کے نفع و نقصان سے بالا تر ہو کر محض اخلاص کی بنیاد پر دوسرے آدمی کے ساتھ تعلق قائم کرتا ہے۔ یہ عقیدہ زندگی کے ہر میدان میں انسان کو ایک دوسرے کے ساتھ مخلص ہو کر رہنے کا سبق دیتا ہے۔ کیونکہ اس کا یہ ایمان ہوتا ہے کہ نفع اور نقصان کا مالک صرف ایک اللہ ہے اگر وہ نہ چاہے تو کوئی مجھے نہ فائدہ دے سکتا ہے اور نہ نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اس عظیم تصور اور عقیدے کو سمجھانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے براہ راست اپنے رسول کو مخاطب کیا ہے کہ اے رسول (ﷺ) ! اگر آپ بھی اس عقیدہ سے ہٹ جائیں تو آپ کا شمار ظالموں میں ہوگا۔ یہاں ظلم سے مراد شرک اور اس کا ارتکاب کرنے والے ظالم ہوں گے۔ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی بے مثال ہستی اور اس کی عظیم صفات کے ساتھ مردوں اور ادنیٰ چیزوں کو شریک بناتے ہیں۔ اس عقیدہ کی مزید وضاحت کرتے ہوئے پھر نبی اکرم (ﷺ) کو مخاطب کیا گیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ آپ کو کوئی تکلیف دینے کا فیصلہ کرے تو زمین و آسمان میں کوئی طاقت نہیں جو اس تکلیف کو آپ سے دور کردے۔ اگر اللہ تعالیٰ آپ کو خیر اور بھلائی عطا کرنا چاہیے ہے تو زمین و آسمان میں کوئی قوت نہیں جو اللہ کے فضل کو آپ سے دور کرسکے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں جسے چاہتا ہے اپنے فضل و کرم سے نوازتا ہے۔ کیونکہ وہ بہت معاف کرنے اور رحم فرمانے والا ہے۔ اس عقیدہ کی تازگی اور پختگی کے لیے آپ نے اپنے چچا زاد بھائی عبداللہ بن عباس (رض) کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر یوں فرمایا۔ (عَنِ الْمُغِیْرَۃِ ابْنِ شُعْبَۃَ (رض) اَنَّ النَّبِیَّ (ﷺ) کَانَ یَقُوْلُ فِیْ دُبُرِ کُلِّ صَلٰوۃٍ مَّکْتُوْبَۃٍ (لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ اَللّٰھُمَّ لاَ مَانِعَ لِمَا اَعْطَیْتَ وَلَا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ وَلَا یَنْفَعُ ذَالْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ)[ رواہ البخاری : باب الذکر بعد الصلٰوۃ] ” حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) ذکر کرتے ہیں نبی کریم (ﷺ) فرض نماز کے بعد اکثر یہ کلمات ادا فرمایا کرتے تھے۔ ” صرف ایک اللہ ہی معبود حق ہے اس کا کسی لحاظ سے کوئی شریک نہیں اس کی حکمرانی ہے‘ وہی تعریفات کے لائق ہے اور وہ ہر چیز پر اقتدار اور اختیار رکھنے والاہے۔ الٰہی جسے تو کوئی چیز عنایت فرمائے اسے کوئی نہیں روک سکتا اور جو تو روک لے وہ کوئی دے نہیں سکتا۔ تیری کبریائی کے مقابلے میں کسی بڑے کی بڑائی فائدہ نہیں دے سکتی۔“ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ کُنْتُ خَلْفَ رَسُوْلِ اللّٰہِ (ﷺ) یَوْمًا فَقَالَ یَا غُلاَمُ اِحْفَظِ اللّٰہَ یَحْفَظْکُ اِحْفِظِ اللّٰہَ تَجِدْہٗ تَجَاہَکَ وَإِذَا سَأَلْتَ فَاَسْأَلِ اللّٰہَ وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ باللّٰہِ وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّۃَ لَوِاجْتَمَعَتْ عَلَی أَنْ یَّنْفَعُوْکَ بِشَیْءٍ لَمْ یَنْفَعُوْکَ إِلاَّ بَشَیْءٍ قَدْ کَتَبَہُ اللّٰہِ لَکَ وَلَوِاجْتَمَعُوْا عَلٰی أَنْ یَّضُرُّوْکَ بِشَیْءٍ لَمْ یَضُرُّوْکَ إِلاَّ بِشَیْءٍ قَدْ کَتَبَہُ اللّٰہُ عَلَیْکَ رُفِعَتِ الْأَقْلَامُ وَجُفَّتِ الصُّحُفُ )[ رواہ أحمد ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں میں رسول اللہ (ﷺ) کے پیچھے سوار تھا آپ نے فرمایا اے بچے اللہ تعالیٰ کے احکامات کی حفاظت کر اللہ تیری حفاظت کرے گا۔ اللہ کو یاد کر اس کو اپنے سامنے پائے گا۔ جب مانگے تو فقط اللہ ہی سے سوال کر۔ مدد کی ضرورت ہو تو اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرو۔ اس بات کو ذہن نشین کرلو اگر ساری دنیا والے تجھے نفع پہنچانے کے لیے جمع ہوجائیں تو نفع نہیں پہنچا سکتے مگر اتنا ہی جتنا اللہ نے تیرے مقدر میں لکھ دیا ہے۔ اگر تمام کے تمام تجھے نقصان پہنچانے کے درپے ہوجائیں تو تجھے نقصان نہیں پہنچا سکتے مگر اتنا ہی جتنا تیرے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے۔ قلمیں اٹھا دی گئیں اور صحیفے خشک ہوچکے ہیں۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں پکارنا چاہیے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نفع نقصان کا مالک نہیں۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو پکارنے والا ظالم ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کسی کو نقصان پہچانا چاہے تو کوئی بچا نہیں سکتا۔ 5۔ اللہ تعالیٰ کے فضل کو کوئی ہٹا نہیں سکتا۔ 6۔ اللہ جسے چاہتا ہے اپنا فضل کا عطا فرماتا ہے۔ 7۔ اللہ معاف کرنے اور رحم فرمانے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی حاجت روا اور مشکل کشا نہیں : 1۔ اللہ کے سوا کسی کو مت پکاریں جو نفع اور نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ (یونس :106) 2۔ اللہ کے سوا کوئی تکلیف دور کرنے والا نہیں۔ (بنی اسرائیل :56) 3۔ اللہ کے سوا مجبور کی دعا سننے والا اور اس کی مصیبت دور کرنے والا کون ہے؟ (النمل :62) 4۔ اللہ ہی تکلیف دور کرتا ہے لہٰذا اسی کو پکارو۔ (الانعام :41) 5۔ اللہ کے سوا کوئی تمہار اولی اور مددگار نہیں۔ (البقرۃ:107) 6۔ لوگوں کا اللہ کے سوا کوئی مددگار نہیں جو ان کی مدد کرسکے۔ (الشورٰی :46) 7۔ اس دن کافر لوگ جان لیں گے جب ان کے چہروں اور پشتوں سے آگ ہٹانے والا کوئی نہیں ہوگا اور نہ وہ مدد کیے جائیں گے۔ (الانبیاء :39)