قُلِ انظُرُوا مَاذَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَمَا تُغْنِي الْآيَاتُ وَالنُّذُرُ عَن قَوْمٍ لَّا يُؤْمِنُونَ
آپ کہیے کہ ذرا غور (٦٥) تو کرو کہ آسمانوں اور زمین میں کیا کچھ ہے، اور جو ایمان لانا نہیں چاہتے انہیں اللہ کی آیتیں اور دھمکیاں کام نہ آئیں گی۔
فہم القرآن : (آیت 101 سے 103) ربط کلام : حضرت یونس (علیہ السلام) کی قوم کے تذکرہ کے بعد۔ انسان کو توجہ دلائی گئی ہے اگر تھوڑا سا عقل سے کام لے اور اللہ تعالیٰ کی قدرتوں پر غور کرے تو اس کے لیے ہدایت کے راستے کھل جائیں گے۔ اللہ کی قدرت کی نشانیاں زمین و آسمان میں اس قدر نمایاں اور پھیلی ہوئی ہیں کہ آدمی تھوڑی سی توجہ کرے تو وہ خود بخود اپنی طرف متوجہ کرلیتی ہیں۔ آسمان کی طرف دیکھیے کب سے جوں کا توں بلا ستون کھڑا ہے نہ اس کی رنگت میں کوئی فرق آیا ہے اور نہ ہی کہیں سے جھکا اور پھٹا ہے یہاں تک کہ اس میں دراڑ اور نشیب و فراز بھی نظر نہیں آتا۔ اب اپنے پاؤں تلے زمین پر غور فرمائیے کہ بظاہر ایک ہی دھرتی ہونے کے باوجود اس مٹی کی ہزاروں قسمیں ہیں۔ ایک زمین چنے کی فصل اگاتی ہے اگر آپ وہاں چاول کی فصل لگائیں تو وہ اسے ہرگز قبول نہیں کرے گی۔ زمین کا ایک قطعہ سبزیوں کے لیے مفید ہے جبکہ دوسرا گنے اور کپاس کی فصل زیادہ اگاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس زمین کو اتنا امانت دار اور فراخ دل بنایا ہے کہ آپ ایک کھیت میں بیس پچیس کلو بیج ڈالتے ہیں تو وہ نہ صرف اس کی حفاظت کرتی ہے بلکہ بیس پچیس کلو کی جگہ چالیس پچاس من گندم واپس کرتی ہے پھر غور فرمائیں زمین، پانی، موسم ایک ہونے کے باوجود پھلوں کے ذائقے اور رنگت میں زمین آسمان سے بھی زیادہ فر ق ہے۔ آپ جوں جوں قادرِمطلق کی قدرت پر غور کریں گے اسی انداز سے اپنے مالک کو پہچانتے جائیں گے۔ بے شمار نشانیاں اور ان گنت شواہد اس شخص کو کچھ فائدہ نہیں دیتے جو اللہ تعالیٰ کی ثبت کردہ نشانیوں سے بے اعتنائی اور اس کے خوف سے بے خوف ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی حالت یہ ہے کہ یہ شعوری یا غیر شعوری طور پر اس برے وقت کا انتظار کرتے ہیں جو ان سے پہلے مجرم قوموں پر وارد کیا گیا تھا۔ اے نبی (ﷺ) ! بس ان ناعاقبت اندیش، خدا کے خوف سے تہی دامن اور عقل کے اندھوں کو یہی کہنا چاہیے کہ تم اپنے انجام کا انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ اس کا انتظار کرتا ہوں۔ لیکن یاد رکھنا کہ جب اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوگا تو وہ مجھے اور میرے ساتھیوں کو اس سے محفوظ فرمائے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا طریقہ ہے جب نبی کی موجودگی میں اس کی قوم پر عذاب آتا ہے تو نبی اور اس کے ایماندار ساتھیوں کو اس بستی سے نکل جانے کا حکم دیا جاتا ہے۔ یہی اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے جو ہر صورت پورا ہوا کرتا ہے۔ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں سے بے ایمان لوگ عبرت حاصل نہیں کرتے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ اپنے عذاب سے اپنے رسولوں اور مومنین کو محفوظ رکھتا ہے۔ 3۔ مومنوں کو نجات دینا اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ مومنوں کی مدد کرتا ہے : 1۔ پھر ہم اپنے پیغمبروں اور ایمان والوں کو نجات دیتے ہیں۔ (یونس :103) 2۔ مومنوں کی مدد کرنا ہمارے لیے لازم ہے۔ (الروم :47) 3۔ بے شک ہم مدد کرتے ہیں اپنے رسولوں کی اور ایمان والوں کی دنیا کی زندگی میں۔ (المومن :51) 4۔ اے ایمان والو! تم اللہ کی مدد کرو (یعنی اللہ کے دین کی) اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے گا۔ (محمد :7) 5۔ ہم نے ان کی مدد کی سو وہ غالب آگئے۔ (الصٰفٰت :116)