قَالُوا أَجِئْتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا وَتَكُونَ لَكُمَا الْكِبْرِيَاءُ فِي الْأَرْضِ وَمَا نَحْنُ لَكُمَا بِمُؤْمِنِينَ
فرعونیوں نے کہا، کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہمیں اس راہ سے الگ کردو جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا تھا، اور تاکہ اس ملک کی سرداری تم دونوں بھائیوں کو مل جائے اور ہم لوگ تم دونوں پر ایمان لانے والے نہیں ہیں۔
فہم القرآن : ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے درمیان گفتگو جاری ہے۔ فرعون کے حواری اس کی تائید کرتے ہوئے بات میں اضافہ کرتے ہیں کہ اے موسیٰ اور ہارون کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہمیں اپنے باپ دادا کے دین سے پھیر دو اور ملک میں تم بڑے لیڈر بن جاؤ؟ یاد رکھو ہم ہرگز تمہیں ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ حواریوں کی اس بات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فرعون نے کہا کہ ان دونوں جادوگروں کا مقصد یہ ہے کہ جادو کے ذریعے تمہیں تمہارے ملک سے نکال دیں اور تمہارا مثالی تہذیب و تمدن ختم کردیں لہٰذا اپنی منصوبہ بندی کرو تاکہ ہم کامیاب رہیں۔ ( طہٰ: 63۔64) قرآن مجید اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ ابتدا ہی سے انبیائے کرام (علیہ السلام) کو یہ الزام دیا جاتا رہا ہے کہ یہ جادوگرہیں۔ (الذاریات :72) قرآن مجید یہ بھی بتلاتا ہے کہ انبیاء کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں میں ایک رکاوٹ آباء کی تقلید ہوا کرتی تھی۔ یہی بات فرعون کے حواریوں نے کہی۔ اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے فرعون نے کہا تھا کہ اگر تمہارا عقیدہ اور دعوت صحیح ہے تو پھر ہمارے پہلے لوگوں کا کیا حال ہوگا؟ اس کا مقصد لوگوں کے جذبات کے ساتھ کھیلنا تھا۔ کیونکہ انسان خود کتنا برا کیوں نہ ہو۔ وہ اپنے فوت شدہ آباؤ اجداد اور بزرگوں کے نظریات کے حوالے سے کوئی تنقید سننا گوارا نہیں کرتا۔ خواہ کہنے والا اعلیٰ اخلاق، نہایت اخلاص اور خیر خواہی کے جذبے سے ہی کیوں نہ سمجھا رہا ہو۔ تقلیدایسی نازک رگ ہے جو معمولی ارتعاش کو بھی گوارا نہیں کرتی۔ اس لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کو یہ جواب دیا جو آپکی فہم وفراست کا بے مثال نمونہ ہے : ﴿قَالَ عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّیْ فِیْ کِتَابٍ لَا یَضِلُّ رَبِّیْ وَلَا یَنْسٰی﴾[ طٰہٰ:52] ” ان کا معاملہ میرے رب کو معلوم ہے جو نہ بھولتا ہے اور نہ اس کی نگاہ سے کوئی چیز چھپی ہوئی ہے۔“ آباء کی اندھی تقلید کا انجام : ﴿وَقَالُوا رَبَّنَآ إِنَّآ أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَکُبَرَآءََ نَا فَأَضَلُّوْنَا السَّبِیْلاً۔ رَبَّنَا اٰتِہِمْ ضِعْفَیْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْہُمْ لَعْنًا کَبِیْرًا ﴾[ الاحزاب : 67۔68] ” اور کہیں گے ہمارے رب ! ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کا حکم مانا انہوں نے ہمیں سیدھی راہ سے بہکا دیا اے رب ان پر دوگنا عذاب کر اور ان پر سخت لعنت فرما۔“ بڑے لوگوں کا کردار : ﴿وَکَذٰلِکَ مَآ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ فِی قَرْیَۃٍ مِنْ نَذِیرٍ إِلَّا قَالَ مُتْرَفُوہَا إِنَّا وَجَدْنَا اٰبَاءَ نَا عَلٰی أُمَّۃٍ وَّإِنَّا عَلٰی اٰثَارِہِمْ مُقْتَدُوْنَ۔ قَالَ أَوَلَوْ جِئْتُکُمْ بِأَہْدٰی مِمَّا وَجَدْتُمْ عَلَیْہِ اٰبَاءَ کُمْ قَالُوْا إِنَّا بِمَآ أُرْسِلْتُمْ بِہِ کَافِرُوْنَ فَانْتَقَمْنَا مِنْہُمْ فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ﴾ [ الزخرف : 23تا25] ” اسی طرح ہم نے کسی بستی میں جب بھی کوئی ڈرانے والابھیجا تو اس بستی کے لوگوں نے یہی کہا ہم نے اپنے آباء و اجداد کو ایک طریقہ پر پایا ہے اور ہم ان کے نقش قدم کی اقتداء کر رہے ہیں۔ کہا خواہ میں تمہارے پاس اس سے زیادہ صحیح طریقہ لاؤں جس پر تم نے اپنے آباء کو پایا تھا کہنے لگے جو پیغام دے کر تمہیں بھیجا گیا ہے ہم اس کے منکر ہیں۔ چنانچہ ہم نے ان سے بدلہ لے لیا دیکھ لو جھوٹوں کا انجام کیسا ہوا۔“ مسائل :1۔ حق کے مقابلہ میں لوگ آباء کی تقلید چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ 2۔ کفار انبیاء کو جادوگر کہا کرتے تھے۔ 3۔ دنیا دار اپنی جاگیر اور چودھراہٹ کی خاطر ایمان نہیں لاتے۔ تفسیر بالقرآن :حق کے مقابلہ میں آباء کی تقلید : 1۔ کفار نے کہا ہم تو اپنے آباؤ اجداد کی پیروی کریں گے۔ (البقرۃ:170) 2۔ کفار نے کہا ہمارے لیے اپنے آباؤ اجداد کا طریقہ ہی کافی ہے۔ (المائدۃ:104) 3۔ کفار نے کہا ہم تو اسی کی تابعداری کریں گے جس پر اپنے آباء کو پایا ہے۔ (لقمان :21) 4۔ کفار نے کہا ہم نے اپنے آباء کو ایک طریقہ پر پایا ہے ہم انہی کی اقتداء کرتے ہیں۔ (الزخرف :23) 5۔ کہیں گے ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کا حکم مانا انہوں نے ہمیں سیدھی راہ سے گمراہ کردیا۔ (الاحزاب :67)