أَلَا إِنَّ لِلَّهِ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَمَن فِي الْأَرْضِ ۗ وَمَا يَتَّبِعُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ شُرَكَاءَ ۚ إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ
آگاہ رہو، کہ جو مخلوق آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے، بیشک ان کا مالک (٤٩) اللہ ہے اور جو لوگ اللہ کے سوا شرکاء کو پکارتے ہیں وہ تو صرف وہم و گمان کی پیروی کرتے ہیں، اور محض بے بنیاد باتیں کرتے ہیں۔
فہم القرآن : (آیت 66 سے 67) ربط کلام : نبی معظم (ﷺ) کے مخالفوں کو خبر دار کرتے ہوئے ان کے عقیدہ کی قلعی کھولی جارہی ہے۔ نبی معظم (ﷺ) کے دشمنوں اور دین کے منکروں کو خبر دار کیا جارہا ہے کہ ہوش کے ناخن لو اور یہ غلط فہمی دماغ سے نکال دو کہ تم اللہ تعالیٰ کی گرفت اور دسترس سے باہر ہو۔ ایسا ہرگز نہیں۔ کیونکہ زمین و آسمانوں میں کوئی چیز نہیں جو اللہ تعالیٰ کی ملک نہ ہو اور اس کے اختیار سے باہر ہو۔ کان کھول کر سن لو کہ یہ سب کچھ اسی کا ہے اگر تمہیں قابو نہیں کیا جارہا تو اس میں اس کا یہ اصول کار فرما ہے کہ وہ ہر شخص کو ایک حد تک مہلت دیتا ہے۔ رہی یہ بات کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو پکارتے اور انہیں اللہ تعالیٰ کا شریک کار سمجھتے ہیں۔ ان کا یہ عقیدہ کسی آسمانی کتاب اور عقل سلیم کی بنیاد پر نہیں بلکہ صرف من گھڑت اور محض گمان کی بنیاد پر ہے۔ عربی زبان میں ظن کا یہ معنی بھی ہے کہ ایسی سوچ اور بات جس کی کوئی ٹھوس بنیاد نہ ہو۔ شرک کی ٹھوس بنیاد نہیں ہوتی جس بنا پر ہر دور کا مشرک اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے بتوں، مورتیوں کو خدا کے ہاں سفارشی اور خدا کی خدائی میں شریک سمجھتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ آسمانی کتابوں پر ایمان لانے اور انبیاء کو تسلیم کرنے والے اور سرور دو عالم کا کلمہ پڑھنے والے حضرات مدفون بزرگوں کو اللہ کی حاکمیت میں شریک اور انہیں اللہ کے حضور اپنا سفارشی بناتے ہیں، اس خود ساختہ عقیدہ کو یہ کہہ کر سچ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں کہ من دون اللہ سے مراد پتھر کے بت اور مٹی سے بنائی ہوئی مورتیاں ہیں، حالانکہ من دون اللہ سے مراد اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز ہے۔ خواہ فرشتے، بت، مورتیاں اور مدفون بزرگ ہی کیوں نہ ہوں۔ کیونکہ مشرکین مکہ میں کچھ لوگ ملائکہ کو، عیسائی حضرت عیسیٰ اور مریم (علیہ السلام) کو، یہودی حضرت عزیر کو اللہ کے ہاں سفارشی بناتے تھے اور آج بھی ان کا یہی عقیدہ اور عمل ہے۔ حالانکہ اللہ وہ ذات ہے جس نے لوگوں کے لیے رات کو سکون اور نیند کا باعث بنایا اور دن کو روشن فرمایا تاکہ لوگ اپنی معاشی اور دیگر ضروریات کو پورا کرسکیں ان لوگوں کے لیے اس بات میں بڑے دلائل ہیں اگر وہ صحیح معنوں میں سننے کا حق ادا کریں۔ سننے کا حق یہ ہے کہ آدمی دل کی گہرائی اور کانوں کو کھول کر حق سنے اور اس پر غور کرے۔ (ق :37) یہاں رات کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ اسے سکون اور آرام کا ذریعہ بنایا ہے۔ غور فرمائیں کہ آدمی کتنا ہی تھکا ماندہ اور غم زدہ ہو صبح بیدا رہوتا ہے تو اس کا غم ہلکا اور نہ صرف تھکاوٹ دور ہوچکی ہوتی ہے بلکہ وہ اپنے آپ کو تازہ دم محسوس کرتا ہے۔ اس کے جسم کی صرف ہونے والی توانائی نیند کے بعد بحال ہوجاتی ہے اگر انسان کو کسی وجہ سے رات نیند نہ آئے تو جسم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتا ہے۔ جہاں تک روز روشن کا مسئلہ ہے اگر دن کی روشنی ختم ہوجائے تو دنیا کا نظام چند دنوں کا مہمان ٹھہرے۔ کیونکہ گھٹا ٹوپ اندھیرے میں نہ صرف کاروبار نہیں ہوسکتا بلکہ انسان کی بینائی بھی کام نہیں دیتی اور بالآخر ختم ہوجاتی ہے۔ اگر رات اور دن اندھیرے میں ڈوب جائیں تو گھبراہٹ سے انسان کا کلیجہ پھٹ جائے۔ کاش مشرک اس بات پر غور کرتے اور اپنے رب کی ذات اور قدرت کا اعتراف کرکے بلا شرکت غیرے اس پر ایمان لاکراس کی بندگی میں سکون پاتے۔ رات، دن کی مثال دے کر شرک کی تاریکیوں اور توحید کی روشنی کی طرف اشارہ کیا گیا کہ شرک اور توحید میں رات اور دن کی مانند فرق ہے۔ لیکن یہ فرق وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو حقیقت سننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ من دون اللہ کی وضاحت قرآن مجیدکی روشنی میں : ” فرمائیے اے لوگو! اگر تمہیں کچھ شک ہو۔ میرے دین کے بارے میں۔ تو سن لو میں عبادت نہیں کرتا ان بتوں کی جن کی تم پوجا کرتے ہو اللہ تعالیٰ کے سوا۔ لیکن میں تو عبادت کرتاہوں اللہ تعالیٰ کی جو مارتا ہے تمہیں۔ اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ہوجاؤں اہل ایمان سے۔“ [ یونس :104] ” آپ فرمائیے مجھے منع کیا گیا ہے کہ میں پوجوں انہیں جن کی تم عبادت کرتے ہو اللہ کے سوا۔ آپ فرمائیے میں نہیں پیروی کرتا تمہاری خواہشوں کی ایسا کروں تو گمراہ ہوگیا میں۔ اور نہ رہا میں ہدایت پانے والوں سے۔“ [ الانعام :56] من دون اللہ سے مرادبت : ” آپ فرمائیے کیا ہم پوجیں اللہ تعالیٰ کے سوا اس کو جو نہ نفع پہنچا سکتا ہے ہمیں اور نہ ہمیں نقصان پہنچا سکتا ہے اور کیا ہم پھر جائیں الٹے پاؤں اس کے بعد کہ ہدایت دی ہمیں اللہ نے؟“ [ الانعام :71] من دون اللہ سے مراد فوت شدگان بزرگ : ” اللہ کے سوا وہ نہیں پیدا کرسکتے کوئی چیز۔ بلکہ وہ خود پید اکیے گئے ہیں۔ وہ مردہ ہیں، وہ زندہ نہیں اور وہ نہیں سمجھتے کہ کب انہیں اٹھایا جائے گا۔“ [ النحل : 20۔21] یہ الفاظ بتا رہے ہیں کہ ان سے مراد انبیاء، شہداء، صالحین اور فوت شدہ شخصیات ہیں۔ جن کو ان کے عقیدت مندحاجت روا اور مشکل کشاسمجھتے ہیں۔ یادر ہے قیامت کے دن پتھر اور لکڑی وغیرہ کے بتوں کو نہیں اٹھایا جائے گا اور نہ کوئی ان کے زندہ ہونے کا قائل ہے۔ (قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ (رض) اِنَّ ہَؤُلَآءِ کَانُوْا قَوْمًا صَالِحِیْنَ فِیْ قَوْمِ نُوْحٍ فَلَمَّا مَاتُوْا عَکَفُوْا عَلٰی قُبُوْرِہِمْ ثُمَّ صَوَّرُوْا تَمَاثِیْلَہُمْ فَعَبَدُوْہُمْ ثُمَّ صَارَتْ ہٰذِہ الَاوْثَانِ فِیْ قَبَائِلِ العَرَبِ) [ مستفاض من کتب التفاسیر والبخاری] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ یہ سب ( وَدّ، سُواع وغیرہ) ” قوم نوح“ کے اولیاء اللہ تھے۔ جب وہ مر گئے تو لوگ ان کی قبروں سے وابستہ ہوگئے اور پھر ان کی عبادت کرنے لگے۔ پھر انھیں کے مجسمے بتوں کی صورت میں عرب کے قبائل میں پھیل گئے۔“ من دون اللہ سے مراد علماء اور اولیاء : ” انہوں نے بنا لیا اپنے پادریوں اور راہبوں کو (اپنے پروردگار) اللہ کو چھوڑ کر اور مسیح مریم کے فرزند کو بھی۔“ [ التوبۃ:31] حضرت سید پیر نصیر الدین آف گولڑہ کے الفاظ میں من دون اللہ کی وضاحت : بعض درگاہی ملاؤں اور خانقاہی زلہ خوروں کا کہنا ہے کہ ہم اپنے مشائخ اور علماء کو معبود تو نہیں سمجھتے، ہم ان کی عبادت تو نہیں کرتے، پھر ہمیں کیوں مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ آئیے ہم یہ کیس (Case) دربار رسالت میں پیش کرتے ہیں، تاکہ آپ (ﷺ) اس کا فیصلہ فرما دیں کہ کیا علماء و مشائخ پر بھی ﴿أَرْبَابًا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ ﴾کے الفاظ کا اطلاق کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ اس سلسلے میں ایک روایت معتبرہ ملاحظہ ہو۔ ” حضرت عدی بن حاتم (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ میری گردن میں ایک سونے کی صلیب پڑی ہوئی تھی۔ آپ نے ارشاد فرمایا اے عدی! اس بت کو اپنے سے اتار پھینکو اور میں نے یہ سنا کہ آپ سورۃ براۃ کی یہ آیت تلاوت فرمارہے تھے کہ ” جن لوگوں نے اپنے علماء و مشائخ کو اللہ کے سوا رب بنا لیا۔“ پس میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول (ﷺ) ! وہ لوگ (یہودونصاریٰ) اپنے بزرگوں کی عبادت تو نہیں کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا کیا وہ لوگ اللہ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام نہیں کرتے تھے اور یہ معتقد انہیں حرام تسلیم کرلیتے تھے اور کیا وہ لوگ اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال نہیں کرتے تھے اور یہ انہیں حلال مان لیتے تھے۔ میں نے عرض کی یارسول اللہ (ﷺ) ! ایساتو ہے پس آپ نے فرمایا یہی عبادت ہے۔“ جن حضرات کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ جن آیات میں اصنام کو خطاب کیا گیا، ان آیات کو انبیاء واولیاء پر منطبق کرنا نہ صرف جہالت ہے، بلکہ تحریف قرآنی ہے۔ وہ ہماری تحقیق بھی ذہن نشین کرلیں کہ غیر اللہ، من دون اللہ، شریک اور انداد کے الفاظ قرآن میں جہاں بھی آئے ہیں، ان سے مراد ہر وہ چیز ہے جو اللہ تعالیٰ کے سوا ہو اور جو وصول الی اللہ میں رکاوٹ بنتی ہو۔ اگر اصنام رکاوٹ بن رہے ہوں تو ان الفاظ سے مراد اصنام ہوں گے اور اگر انسان بن رہے ہوں تو انسان مراد ہوں گے۔ اگر کوئی عالم یا شیخ اللہ کے راستے میں رکاوٹ بن رہا ہے تو وہ یصدون عن سبیل اللہ کے زمرے میں آئے گا۔ پس ایسا شخص غیر اللہ، من دون اللہ، شریک اور انداد کے الفاظ کا مصداق ٹھہرے گا۔ معلوم ہوا کہ جو چیز اللہ کے راستے میں رکاوٹ بنے وہ غیر اللہ ہے۔ چاہے وہ اصنام ہوں یا کوئی انسان۔[ اعانت واستعانت کی شرعی حقیقت ازقلم حضرت پیر سید نصیر الدین نصیرصاحب آف گولڑہ] مسائل : 1۔ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے اللہ ہی کا ہے۔ 2۔ بد عقیدہ لوگ محض اپنے خیالات کی پیروی کرتے ہیں۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے سکون حاصل کرنے کے لیے رات کو بنایا ہے۔ 4۔ علم رکھنے والوں کے لیے دن اور ات میں نشانیاں ہیں۔ تفسیر بالقرآن : من دون اللہ کے دلائل : 1۔ میں ان کی عبادت نہیں کرتا جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو۔ (یونس :104) 2۔ مجھے منع کیا گیا ہے کہ میں ان کی عبادت کروں جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو۔ (الانعام :56) 3۔ کیا میں اللہ کے سوا ان کو پکاروں جو نفع اور نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ (الانعام :71) 4۔ جن کو لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہیں انھوں نے کوئی چیز پیدا نہیں کی بلکہ وہ خود پیدا کیے گئے ہیں۔ (النحل :20) 5۔ جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ تمھارے جیسے بندے ہیں۔ (الاعراف :194) 6۔ انھوں نے اپنے پادریوں اور راہبوں اور مسیح ابن مریم کو اللہ کے سوا معبود بنا لیا۔ (التوبۃ:21)