سورة البقرة - آیت 135

وَقَالُوا كُونُوا هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ تَهْتَدُوا ۗ قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۖ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور انہوں نے کہا یہودی یا نصرانی ہوجاؤ، تاکہ راہ راست پر آجاؤ (اے میرے نبی) آپ کہہ دیجئے کہ ہم نے ابراہیم کی ملت کو اپنا لیا (١٩٧) ہے جنہوں نے تمام ادیانِ باطلہ کو چھوڑ کر، دین توحید کو قبول کرلیا تھا، اور جو مشرک (١٩٨) نہیں تھے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ( آیت 135 سے 136) ربط کلام : اہل کتاب لوگوں کو یہودی اور عیسائی ہونے کی دعوت دیتے ہیں حالانکہ لوگوں کو ملت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعوت دینا چاہیے۔ لہٰذا اے نبی آخر الزماں حضرت محمد {ﷺ}آپ لوگوں کو وہی دعوت دیں جو ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی اولاد عالی دیا کرتی تھی۔ وہ دعوت توحید خالص اور دین اسلام کی دعوت تھی۔ فکر و عمل کے لحاظ سے کمزور جماعتیں لوگوں کو اپنی طرف راغب رکھنے اور اپنے بوسیدہ نظریات کو منوانے کے لیے ہمیشہ سے بزرگوں کا نام ناجائز استعمال کرتی آئی ہیں۔ ایسے لوگ فکری دولت سے اس قدر محروم ہوتے ہیں کہ وہ صدیوں پہلے فوت شد گان بزرگوں کو بھی اپنے بوسیدہ نظریات کا حامل ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہود و نصاریٰ بھی اسی فکری بیچارگی کا شکار تھے اور ہیں۔ لہٰذا جب بھی انہیں دین اسلام کی دعوت پیش کی جاتی ہے تو وہ اپنے آپ کو مطمئن کرنے کے لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور جناب یعقوب (علیہ السلام) کو یہودی ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ یہاں ایک بار پھر واضح کیا جا رہا ہے کہ جن بزرگوں کو تم اپنے نظریات کا حامل ثابت کر رہے ہو ان کا تو تمہارے نظریات کے ساتھ دور کا بھی واسطہ نہیں تھا اور نہ ہی مشرکین کے ساتھ ان کا تعلق جوڑا جا سکتا ہے لہٰذا سرور گرامی {ﷺ}کو حکم دیا جا رہا ہے کہ آپ دو ٹوک انداز میں اس بات کا اظہار فرمائیں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے بعد آنے والے انبیاء کا نظریہ یہود و نصاریٰ اور اہل مکہ کے نظریات سے یکسر مختلف تھا۔ وہ تو ایک رب کی توحید کو ماننے والے اور زندگی بھر اسی کے تابع فرمان رہنے والے تھے۔ اسی دعوت کا اقرار اور اظہار مسلمانوں سے کروایا جا رہا ہے کہ ہم اسی عقیدے کے حامل اور اسی دعوت کے داعی ہیں جو عظیم المرتبت ہستیاں اور ان کی نیک اولاد پھر انہی کی پیروی کرنے والے جلیل القدر پیغمبر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) دیا کرتے تھے۔ ہم بلا تفریق ان کی پیغمبرانہ حیثیت کو تسلیم اور ان کی شریعتوں کی تائید کرتے ہیں۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ {رض}قَالَ کَانَ أَہْلُ الْکِتَابِ یَقْرَءُ وْنَ التَّوْرَاۃَ بالْعِبْرَانِیَّۃِ وَیُفَسِّرُونَہَا بالْعَرَبِیَّۃِ لِأَہْلِ الْإِسْلَامِ فَقَالَ رَسُول اللَّہِ {}لَا تُصَدِّقُوا أَہْلَ الْکِتَابِ وَلَا تُکَذِّبُوْہُمْ وَقُوْلُوْا﴿ آمَنَّا باللّٰہِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَیْنَا﴾ الْآیَۃَ) [ رواہ البخاری : کتاب تفسیر القرآن، باب ﴿قُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا ﴾] ” حضرت ابوہریرہ {رض}بیان کرتے ہیں کہ اہل کتاب تورات کو عبرانی زبان میں پڑھتے اور مسلمانوں کے لیے اس کی تفسیر عربی زبان میں کرتے تھے تو رسول اللہ {ﷺ}نے فرمایا : نہ تم اہل کتاب کی تصدیق کرو اور نہ ان کو جھٹلاؤ بلکہ تم کہو کہ ہم اللہ پر اور جو ہماری طرف اتارا گیا اس پر ایمان لے آئے ہیں۔“ مسائل : 1۔ ہدایت کا سرچشمہ صرف ملت ابراہیم ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ اور قرآن مجید، پہلی آسمانی کتابوں پر ایمان لانا اور تمام انبیاء کو بلا تفریق تسلیم کرنا ہی اسلام ہے۔ 3۔ انبیاء کے درمیان فرق کرنا کفر ہے۔ 4۔ انبیاء میں سے کسی کی گستاخی کرناجائز نہیں۔ تفسیر بالقرآن : انبیاء کا مقام اور کتب آسمانی کا احترام : 1۔ تمام انبیاء پر ایمان لانا فرض ہے۔ (البقرۃ:136) 2۔ پہلی کتب آسمانی پر ایمان لانا لازم ہے۔ (البقرۃ:4) 3۔ اللہ تعالیٰ اور انبیاء کے درمیان فرق کرنا کفر ہے۔ (النساء :150)