وَمَا كَانَ النَّاسُ إِلَّا أُمَّةً وَاحِدَةً فَاخْتَلَفُوا ۚ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ فِيمَا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ
اور تمام لوگوں کی صرف ایک جماعت (١٨) تھی، پھر ان کے آپس میں اختلاف ہوگیا، اور اگر آپ کے رب کی جانب سے ایک بات پہلے سے طے نہ ہوتی، تو جن باتوں میں وہ آپس میں اختلاف کرتے ہیں ان میں ان کے درمیان فیصلہ کردیا جاتا۔
فہم القرآن : (آیت 19 سے 20) ربط کلام : لوگوں کی وحدت بیان فرما کر ثابت کیا گیا ہے کہ شرک سے پہلے لوگ توحید پر قائم تھے اور توحید ہی لوگوں کے درمیان اتحاد کے ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو فطرتاً توحید پر پیدا فرمایا ہے۔ یہ فطرت کی آواز اور اس کا تقاضا تھا کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو پیدا فرما کر اس کی پشت سے اس کی تمام اولاد کو پیدا کیا اور ان سے۔ ﴿اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ﴾ فرمایا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ تمام بنی آدم نے توحید کا اقرار اور اس کا اظہار کرتے ہوئے عرض کی کہ کیوں نہیں، آپ ہی ہمارے رب ہیں فرمایا اس پر گواہ رہنا۔ قیامت کو یہ نہ کہنے پاؤ کہ ہمیں تو اس عہد کا علم ہی نہیں ہم تو اس لیے شرک کرتے رہے کہ ہمارے آباؤ اجداد شرک کرتے تھے۔ (الاعراف : 73۔74) اسی عہد کی ترجمانی کرتے ہوئے نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا کہ ہر بچہ فطرت اسلام یعنی عقیدہ توحید پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اسے جیسا ماحول ملتا ہے ویسا ہوجاتا ہے۔ یہی ارشاد اس آیت مبارکہ میں پایا جارہا ہے کہ لوگ پہلے ایک ہی امت تھے۔ انھوں نے بعد میں توحید کے بارے میں اختلاف کیا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ نہ ہوتا کہ لوگوں کو کفرو شرک، توحید اور ایمان میں سے کسی ایک کو اختیار کا حق دیا جاتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰکفر و شرک، سرکشی اور بغاوت کرنے والوں کو موقع پر ہی تہس نہس کردیتا۔ فوری طور پر نہ پکڑنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دنیا دارالعمل ہے، دارالجزاء نہیں اس اصول کے پیش نظر لوگوں کو مہلت دی جاتی ہے شاید وہ توبہ کرلیں۔ حالانکہ خدا کے باغی انبیاء سے پر زور مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ اگر آپ سچے ہیں تو ہم پر عذاب نازل کیا جائے۔ اسی روش کے تحت مشرکین مکہ بھی نبی کریم (ﷺ) سے مطالبہ کرتے تھے کہ ہم پر عذاب نازل کرو۔ یہاں تک کہ انہوں نے کعبہ کا غلاف پکڑ کر کہا کہ الٰہی! اگر تیرا نبی سچا ہے تو ہم پر پتھر برسایا ہمیں اذّیت ناک عذاب میں مبتلا کردے۔ جس کا جواب یہ دیا گیا کہ تم اسی لائق ہو مگر اللہ تعالیٰ تمھیں اس لیے عذاب نہیں کر رہا کہ اس کا رسول اور مسلمان تم میں موجود ہیں جو توبہ استغفار کرتے رہتے ہیں۔ (الانفال : 32۔33) اس کے جواب میں نبی اکرم (ﷺ) کو فقط اتنا ہی حکم ہوا کہ آپ فرمائیں یہ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ عذاب کب آئے گا۔ پس تم انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کررہا ہوں۔ (عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) مَا مِنْ مَّوْلُوْدٍ اِلَّا یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ فَاَبَوَاہُ یُھَوِّدَانِہٖ اَوْ یُنَصِّرَانِہٖ اَوْ یُمَجِّسَانِہٖ کَمَا تُنْتَجُ الْبَھِیْمَۃُ بَھیمَۃً جَمْعَآءَ ھَلْ تُحِسُّوْنَ فْیھَا مِنْ جَدْعَآءَ ثُمَّ یقُوْلُ ﴿ فِطْرَۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیھَا لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ ذَالِکَ الدِّیْنُ الْقیّمُ﴾) [ رواہ البخاری : کتاب التفسیر، باب﴿ لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ ﴾] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول محترم (ﷺ) نے فرمایا ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔ اس کے والدین اس کو یہودی‘ عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں جس طرح چارپائے اپنے بچے کو تام الخلقت پیدا کرتے ہیں کیا تم ان میں سے کسی بچے کو کان کٹا پاتے ہو؟ پھر آپ (ﷺ) نے آیت تلاوت کی۔” اللہ کا طریقہ ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے اللہ کی تخلیق میں تبدیلی نہیں ہے یہ بالکل سیدھا اور صحیح دین ہے۔“ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ أَخَذَ اللَّہُ الْمِیثَاقَ مِنْ ظَہْرِ آدَمَ بِنَعْمَانَ یَعْنِی عَرَفَۃَ فَأَخْرَجَ مِنْ صُلْبِہِ کُلَّ ذُرِّیَّۃٍ ذَرَأَہَا فَنَثَرَہُمْ بَیْنَ یَدَیْہِ کَالذَّرِّ ثُمَّ کَلَّمَہُمْ قِبَلاً قَالَ ﴿أَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوا بَلَی شَہِدْنَا أَنْ تَقُولُوا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ إِنَّا کُنَّا عَنْ ہَذَا غَافِلِینَ أَوْ تَقُولُوا إِنَّمَا أَشْرَکَ اٰبَاؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَکُنَّا ذُرِّیَّۃً مِنْ بَعْدِہِمْ أَفَتُہْلِکُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُوْنَ﴾) [ رواہ أحمد] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نبی (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کی اولاد سے نعمان یعنی عرفہ کے مقام پر عہدلیا اس کی صلب سے اس کی اولاد کو نکالا اور اسے اس کے سامنے پھیلا دیا، پھر ان کے سامنے کلام فرمایا، کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ بنی آدم نے کہا کیوں نہیں ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ ہی ہمارے رب ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن یہ نہ کہنا کہ ہمیں اس کی خبر نہ تھی یا شرک ہمارے آباؤ اجداد نے کیا ہم تو ان کی اولاد تھے کیا تو ہمیں باطل پرستوں کے شرک کی وجہ سے ہلاک کرتا ہے۔“ عقیدہ توحید وحدت کی علامت ہے : ﴿یَا أَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِی خَلَقَکُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوْا اللّٰہَ الَّذِی تَسَاءَ لُونَ بِہِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا﴾[ النساء :1] ” اے لوگو! ڈرو اپنے رب سے جس نے پیدا فرمایا تمہیں ایک جان سے اور اس سے اس کا جوڑا پیدا فرمایا اور پھیلائے اس سے مرد کثیر تعداد میں اور عورتیں اور ڈرو اللہ تعالیٰ سے وہ اللہ، مانگتے ہو جس کے واسطے سے اور قطع رحمی سے ڈرو یقیناً اللہ تعالیٰ تم پر نگران ہے۔“ (عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ حَدَّثَنِی مَنْ سَمِعَ خُطْبَۃَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) فِی وَسَطِ أَیَّام التَّشْرِیقِ فَقَالَ یَا أَیُّہَا النَّاسُ أَلاَ إِنَّ رَبَّکُمْ وَاحِدٌ وَإِنَّ أَبَاکُمْ وَاحِدٌ أَلاَ لاَ فَضْلَ لِعَرَبِیٍّ عَلٰی أَعْجَمِیٍّ وَلاَ لِعَجَمِیٍّ عَلٰی عَرَبِیٍّ........)[ رواہ احمد] ” حضرت ابو نضرۃ بیان کرتے ہیں کہ مجھے اس شخص نے خبر دی جس نے ایام تشریق میں رسول اللہ (ﷺ) کا خطبہ سنا آپ نے فرمایا اے لوگو! تمہار ارب اور تمہارا باپ ایک ہے۔ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر برتری حاصل نہیں....“ مسائل : 1۔ ابتداءً تمام لوگ عقیدہ توحید اور ایک ہی طریقہ پر تھے۔ 2۔ رسول اکرم (ﷺ) سے کفار معجزے کا مطالبہ کرتے تھے۔ 3۔ غیب کی خبر اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ 4۔ نبی بھی اللہ کے فیصلے کا منتظر ہوتا تھا۔ 5۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اگر لوگوں کا معاملہ مقرر شدہ نہ ہو تو ان کا فیصلہ جلد چکادیا جائے۔ تفسیر بالقرآن : کفار کا بار بار معجزات کا مطالبہ کرنا : 1۔ کافر کہتے ہیں کہ نبی پر اس کے پروردگار کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہیں نازل ہوتی۔ (یونس :20) 2۔ کفار کہتے ہیں کہ نبی پر اس کے رب کی طرف سے معجزات کیوں نازل نہیں ہوتے۔ (العنکبوت :50) 3۔ کفار کہتے ہیں کہ نبی پر اس کے پروردگار کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہیں نازل کی گئی۔ (الانعام :37) 4۔ کافر قسمیں اٹھاتے ہیں کہ اگر ان کے پاس کوئی معجزہ آیا تو وہ اس پر ضرور ایمان لائیں گے۔ (الانعام :109)