وَلَوْ يُعَجِّلُ اللَّهُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَهُم بِالْخَيْرِ لَقُضِيَ إِلَيْهِمْ أَجَلُهُمْ ۖ فَنَذَرُ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ
اور اگر اللہ لوگوں کو شر (١١) پہنچانے میں ویسی ہی جلدی کرتا جیسی وہ لوگ خیر کی جلدی مچاتے ہیں، تو ان کی موت کا ہی فیصلہ کردیا گیا ہوتا، پس جو لوگ ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے ہیں ہم انہیں ان کی سرکشی میں بھٹکتا ہوا چھوڑ دیتے ہیں۔
فہم القرآن : (آیت 11 سے 12) ربط کلام : جہنمیوں اور جنتیوں کی سزا اور صلہ بیان کرنے کے بعد انسان کی فطرت بیان کی جارہی ہے۔ انسان جلد باز ہے لیکن اللہ تعالیٰ برد بار اور غفور الرحیم ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کی کو تاہیوں اور گناہوں پر پکڑنا چاہے تو کسی ایک کا بھی بچنا محال ہوجائے۔ لیکن اللہ تعالیٰ اپنی حکمت اور بردباری کی وجہ سے لوگوں کو ڈھیل اور مہلت دیتا ہے تاکہ لوگ اپنے افکار اور کردار پر نظر ثانی کریں اور اس کی بارگاہ میں تائب ہوجائیں۔ عادی مجرموں کو اس لیے ڈھیل دیتا ہے تاکہ انہیں گناہ اور جرائم کرنے میں کوئی حسرت باقی نہ رہے۔ ایسے لوگ اپنے گناہوں میں گھرے اور پریشان رہتے ہیں۔ یاد رہے نیکی میں سکون اور اطمینان ہے۔ جس کا لطف آدمی اللہ تعالیٰ کی عبادت اور کسی بھائی کے ساتھ تعاون کرکے فوری طور پر محسوس کرتا ہے۔ برائی بظاہر کتنی ہی اچھی اور وقتی طورپراس میں کتنی لذت اور فائدہ ہو۔ بالآخر اس میں پریشانی، مال اور صحت کا نقصان ہی ہوتا ہے۔ جس شخص کو گناہوں میں ڈھیل دی جائے اسے خوش ہونے کے بجائے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ﴿فِیْ طُغْیَانِھِمْ یَعْمَھُوْنَ﴾ ” وہ اپنی نافرمانیوں میں بھٹکتے رہتے ہیں“ پڑھ کر سوچنا اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کرنی چاہیے۔ انسان صرف جلد باز ہی نہیں بلکہ احسان فراموش بھی ہے۔ اگر اسے کوئی تکلیف پہنچے تو لیٹے ہوئے اور اٹھتے بیٹھتے اپنے رب کو یاد کرتا اور آہیں بھرتا ہے۔ جوں ہی اس کی تکلیف دور کردی جائے تو اپنے منعم حقیقی اور محسن ابدی کو بھول جاتا ہے۔ گویا کہ اس کو کبھی تکلیف پہنچی ہی نہیں اور نہ ہی اس نے اپنے خالق کو پکارا تھا۔ ایسا وہی کرتے ہیں جنہوں نے اسراف وتبذیر کا رویہ اختیار کر رکھا ہوتا ہے۔ جس میں کافر اور مشرک سر فہرست ہوتے ہیں۔ کیونکہ جب مشرک سمندر کا سفر کرتے ہیں تو صرف ایک اللہ کو پکارتے ہیں بھنور سے جب انہیں اللہ تعالیٰ نجات دیتا ہے تو اس کے ساتھ شرک کرنا شروع کردیتے ہیں۔ ( لقمان :32) اسراف کا معنی ہے : زیادتی کرنا، حد سے تجاوز کرنا، فضول خرچی کرنا۔ اسراف میں یہ جرم بھی شامل ہوتا ہے کہ کسی فرد، خاندان یا قوم کے لیے گناہ فیشن کا درجہ اختیار کر جائے اگر اسے روکا جائے تو وہ اس میں اپنی توہین اور گناہ کو چھوڑنے میں دقیانوسی ہونے کا طعنہ محسوس کرتا ہے۔ ﴿إِنَّ الْمُبَذِّرِینَ کَانُوْا إِخْوَان الشَّیَاطِینِ وَکَان الشَّیْطَانُ لِرَبِّہِ کَفُوْرًا﴾[ بنی اسرائیل :27] ” بلاشبہ فضول خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا نافرمان تھا۔“ فضول خرچی کی ممانعت : (عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) کُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَتَصَدَّقُوْا وَالْبَسُوْا مَا لَمْ یُخَالِطْ إِسْرَافٌ وَلَا مَخِیْلَۃٌ )[ رواہ ابن ماجہ : باب البس ماشئت] ” حضرت عمر بن شعیب اپنے باپ سے اور وہ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کھاؤ، پیو، صدقہ کرو اور پہنو جب تک اس میں فضول خرچی اور فخر نہ آئے۔“ ﴿وَالَّذِیْنَ إِذَا أَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَکَانَ بَیْنَ ذَلِکَ قَوَامًا﴾[ الفرقان :67] ” نیک لوگ جب خرچ کرتے ہیں تونہ اسراف کرتے ہیں اور نہ کنجوسی کرتے ہیں بلکہ میانہ روی اختیار کرتے ہیں۔“ جلد بازی شیطان کی حرکت : (حَدَّثَنَا أَبُو مُصْعَبٍ الْمَدَنِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمُہَیْمِنِ بْنُ عَبَّاسِ بْنِ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِیِّ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) الأَنَاۃُ مِنَ اللَّہِ وَالْعَجَلَۃُ مِنَ الشَّیْطَانِ ) [ رواہ الترمذی : باب ماجاء فی التانی] ” حضرت سہل بن سعد ساعدی (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (ﷺ) نے فرمایا بردباری اللہ کی طرف سے ہے اور جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ کسی کو عذاب دینے میں جلدی نہیں کرتا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ رحم و کرم فرمانے میں جلدی کرتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کی ملاقات کا منکر اپنے گناہوں میں پریشان رہتا ہے۔ 4۔ دنیا دار انسان مصیبت کے وقت اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے۔ 5۔ دنیا پرست اور مشرک مصیبت ٹل جانے کے بعد اللہ تعالیٰ کو بھول جاتا ہے۔ 6۔ گناہ کرنے والوں کے لیے ان کے گناہ خوبصورت بنا دیے جاتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن : انسان جلد باز اور احسان فراموش ہے : 1۔ انسان جلد باز ہے۔ (بنی اسرائیل :11) 2۔ انسان فطرتاً جلد باز ہے۔ (الانبیاء :37) 3۔ یقیناً انسان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔ ( العادیات :6) 4۔ لوگ عذاب طلب کرنے میں جلدی کرتے ہیں۔ (الحج :48) 5۔ کیا وہ ہمارے عذاب کے معاملے میں جلدی کرتے ہیں۔ (الشعرا :203) 6۔ میں عنقریب تمہیں اپنی نشانیاں دکھاؤں گا سو جلدی نہ کرو۔ (الانبیاء :37) 7۔ اللہ کا حکم آنے والا ہے جلدی نہ کرو۔ (النحل :1)