وَمَن يَرْغَبُ عَن مِّلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلَّا مَن سَفِهَ نَفْسَهُ ۚ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا ۖ وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ
اور ملت ابراہیمی (١٩٢) سے، سوائے اس آدمی کے جس نے اپنے آپ کو احمق بنایا، کون اعراض کرسکتا ہے، اور ہم نے دنیا میں اسے چن لیا تھا، اور آخرت میں وہ نیک لوگوں میں سے ہوگا
فہم القرآن : (آیت 130 سے 132) ربط کلام : سابقہ آیات میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے عقیدے کی وضاحت ان کو بیت اللہ کا بانی ثابت کرنا ان کا اہل مکہ سے خصوصی تعلق اور نبی کریم کی نبوت کے بارے میں واضح ثبوت دیتے ہوئے یہ وضاحت کی جارہی ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی اولاد کو بھی اسی عقیدے کی وصیت فرمائی تھی جس کی دعوت نبی آخر الزمان {ﷺ}پیش کررہے ہیں۔ جو شخص ابراہیم (علیہ السلام) کے عقیدہ اور ان حقائق کو نہیں مانتا اس کی حماقت میں کیا شک ہوسکتا ہے؟ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اپنے رب کے حضور اطاعت گزاریاں‘ قربانیاں‘ دعائیں بالخصوص یہ ا لتجا جس میں نبی آخر الزماں کی بعثت کی آرزو کی گئی ہے ان سے وہی شخص اعراض و انحراف کرسکتا ہے جس نے اپنے آپ کے لیے حماقت اور نقصان کا راستہ پسند کرلیا ہو۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کی خدمات اور امتحانات کی وجہ سے انہیں دنیا میں نیک نامی‘ عظمت اور رہتی دنیا تک امامت کے منصب سے سرفراز فرمایا ہے اور آخرت میں یقیناً وہ خدا کے پسندیدہ اور برگزیدہ لوگوں میں ہوں گے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اطاعت شعاری کا یہ حال تھا کہ جب بھی ان کے رب نے انہیں حکم فرمایا کہ تابعدار ہوجاؤ۔ وہ یہ کہتے ہوئے پورے اخلاص اور مکمل انہماک کے ساتھ اپنے رب کے فرمانبردار ہوئے کہ فرمانبرداری میرا کمال اور احسان نہیں میں تو اس رب کی فرمانبرداری کر رہا ہوں جس کی سب کو فرمانبرداری کرنا چاہیے۔ کیونکہ وہ تو سب کو پالنے والا اور تمام جہانوں کا مالک ہے۔ یہ فرمانبرداریاں ان کی ذات اور بیٹوں تک محدود نہیں تھیں بلکہ ان کے پوتے حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے بھی اپنی نسل کو اسی طریقے اور دین پر مر مٹنے کی ہدایت کی تھی۔ لیکن اے اہل کتاب ! تمہاری حالت یہ ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی وراثت کے دعویدار ہونے کے باوجود حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بنائے ہوئے گھر کو تسلیم نہیں کرتے ہو اور نہ ہی ان کی دعا کے صلہ میں مبعوث ہونے والے محمد عربی خاتم النبیین {ﷺ}کو ماننے کے لیے تیار ہو۔ تم ہی بتاؤ اس سے زیادہ حماقت اور کیا ہو سکتی ہے؟ آدمی کے انجام کا دارومدار اس کے خاتمہ پر ہے لہٰذا آدمی کو اپنے انجام کی فکر کرنی چاہیے۔ جس کے بارے میں نبی کریم {ﷺ}یوں فرمایا کرتے تھے : (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ {رض}أَنَّ رَسُول اللّٰہِ {ﷺ}قَالَ إِنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ الزَّمَنَ الطَّوِیلَ بِعَمَلِ أَہْلِ الْجَنَّۃِ ثُمَّ یُخْتَمُ لَہٗ عَمَلُہٗ بِعَمَلِ أَہْلِ النَّارِ وَإِنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ الزَّمَنَ الطَّوِیلَ بِعَمَلِ أَہْلِ النَّارِثُمَّ یُخْتَمُ لَہٗ عَمَلُہٗ بِعَمَلِ أَہْلِ الْجَنَّۃِ) [ رواہ مسلم : کتاب القدر، باب کیفیۃ خلق الآدمی فی بطن امہ۔۔] ” حضرت ابوہریرہ {رض}بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ {ﷺ}نے فرمایا : آدمی طویل عرصہ جنتیوں والے اعمال کرتارہتا ہے پھر اس کا خاتمہ جہنمیوں والے اعمال پر ہوجاتا ہے اور ایک آدمی لمبا عرصہ جہنمیوں والے اعمال کرتارہتا ہے پھر اس کا خاتمہ جنتیوں والے اعمال پر ہوجاتا ہے۔“ مسائل : 1۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرز حیات سے منہ پھیرنے والا احمق ہوگا۔ 2۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) دنیا میں معزز ترین اور آخرت میں صالحین میں سے ہیں۔ 3۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) زندگی بھر اپنے رب کے تابع فرمان رہے۔ 4۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے پوتے حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اپنی اولاد کو مرتے دم تک مسلمان رہنے کی وصیت فرمائی۔ تفسیر بالقرآن : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سب کے پیشواہیں : 1۔ ابراہیم (علیہ السلام) سب کے پیشوا ہیں۔ (البقرۃ :124) 2۔ ابراہیم (علیہ السلام) سب کے لیے اسوہ ہیں۔ (الممتحنۃ:4) 3۔ نبی آخر الزمان {ﷺ}کو ابراہیم (علیہ السلام) کی اتباع کا حکم ہوا ہے۔ (النحل :123) 4۔ ملت ابراہیم (علیہ السلام) کی اتباع کا سب کو حکم ہے۔ ( آل عمران :95)