سورة التوبہ - آیت 123

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قَاتِلُوا الَّذِينَ يَلُونَكُم مِّنَ الْكُفَّارِ وَلْيَجِدُوا فِيكُمْ غِلْظَةً ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اے ایمان والو ! تمہارے آس پاس جو کفار ہیں ان سے جنگ (٩٨) کرو اور تمہیں ان کے ساتھ برتاؤ میں سختی کرنی چاہیے، اور جان لو کہ بیشک اللہ تقوی والوں کے ساتھ ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : جہاد کے مسائل کے دوران اہم امور کی طرف توجہ دلانے کے بعد اب پھر جہاد اور منافقوں کا ذکر ہوتا ہے۔ مملکت کے استحکام کا بنیادی اصول یہ ہے کہ ملک اندرونی سازشوں سے محفوظ ہو۔ اس کے لیے ملک و ملت کے غداروں سے آگاہی ضروری ہوتی ہے۔ جو ملک اور قوم کے لیے مار آستین ہوتے ہیں۔ اس لیے مسلسل کئی آیات میں منافقوں کے عقائد اور کردار کے بارے میں تفصیل بتا کر ان سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اب اسلامی سرحدات کے ارد گرد کے دشمنوں کی سرکوبی کے لیے ہدایات دی جارہی ہیں کہ مسلمانو! اپنے ملک کی سرحدوں کو دشمن سے محفوظ رکھو۔ جس کا بنیادی اصول یہ ہے کہ قریب کے دشمن پر نظر رکھو اگر وہ شرارتوں اور سازشوں سے باز نہیں آتا تو ان پر اس چابکدستی اور جوانمردی کے ساتھ حملہ کرو کہ وہ تمہاری طاقت کے سامنے ٹھہرنے نہ پائیں۔ ان پر حملہ کرتے ہوئے اپنی طاقت کا اس طرح مظاہرہ کرو کہ وہ تم میں کسی قسم کی کمزوری اور نرمی محسوس نہ کریں۔ لیکن یاد رکھنا کہ ان پر ظلم نہ ہونے پائے۔ یہاں متقین کا پہلا مفہوم یہ ہے جو ظلم کرنے سے اجتناب کرنے والے ہوں ایسے انصاف پسند لوگوں کی اللہ تعالیٰ معاونت کرتا ہے۔ ان کے ساتھ لڑنا چاہیے جو اسلام کے راستے میں رکاوٹ اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے ہوں۔ اگر وہ تبلیغ دین کے راستے میں رکاوٹ پیدا نہ کریں اور بقائے باہمی کے اصول پر رہنا چاہیں تو ان پر کوئی تعارض نہیں ہونا چاہیے۔ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ وُجِدَتِ امْرَأَۃٌ مَقْتُوْلَۃً فِی بَعْضِ مَغَازِیْ رَسُوْلِ اللَّہِ () فَنَہَی رَسُوْلُ اللَّہِ () عَنْ قَتْلِ النِّسَاءِ وَالصِّبْیَا نِ)[ رواہ البخاری : کتاب الجہاد، باب قتل النساء فی الحرب] ” حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) کے غزوات میں سے کسی غزوہ میں ایک مقتول عورت پائی گئی تو رسول اللہ (ﷺ) نے عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے سے منع فرما دیا۔“ (وَعَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () ” مَنْ کَانَتْ لَہُ مَظْلَمَۃٌلِأَخِیْہِ مِنْ عِرْضِہٖ اَوْ شِیْءٍ فَلْیَتَحَلَّلْہُ الْیَوْمَ قَبْلَ أَنْ لَا یَکُونَ دِیْنَارٌ وَلَا دِرْھَمٌ إِنْ کَانَ لَہٗ عَمَلٌ صَالِحٌ اُخِذَ مِنْہُ بِقَدَرِ مَظْلِمَتِہٖ وَإِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّہٗ حَسَنَاتٌ أُخِذَ مِنْ سَیِّئَاتِ صَاحِبِہٖ فَحُمِلَ عَلَیْہِ) [ رواہ البخاری : باب مَنْ کَانَتْ لَہُ مَظْلَمَۃٌ عِنْدَ الرَّجُلِ فَحَلَّلَہَا لَہُ، ہَلْ یُبَیِّنُ مَظْلَمَتَہُ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا‘ جس کسی نے اپنے مسلمان بھائی کی بے عزتی کی اور اس پر زیادتی کی تو اسے چاہیے وہ اس سے آج ہی معافی مانگ لے اس سے پہلے کہ جب دینار اور درہم نہ ہوں گے۔ اگر اس کے نیک اعمال ہوں گے تو اس کی زیادتی کے مطابق ان میں سے (مظلوم کو دینے کے لیے) لیے جائیں گے۔ اور اگر اس کے نیک عمل نہیں ہوں گے تو مظلوم شخص کی برائیوں کو اس پر لاد دیا جائے گا۔“ مسائل : 1۔ جہاد قریب کے دشمنوں سے شروع کرنا چاہیے۔ 2۔ مسلمانوں کے ساتھ نرم خو اور کفار کے ساتھ سخت ہونا چاہیے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ تقویٰ اختیار کرنے والوں کا ساتھ دیتا ہے۔ 4۔ ا یمان والوں کو کفار کے ساتھ جہاد کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن : متقین کے فضائل اور اللہ تعالیٰ کی رفاقت : 1۔ اللہ متقین کے ساتھ ہے۔ (التوبۃ:123) 2۔ اللہ سے ڈرو اور جان لو بے شک اللہ تعالیٰ متقین کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ:194) 3۔ بے شک اللہ متقین کو پسند کرتا ہے۔ (آل عمران :76) 4۔ اللہ متقین سے محبت کرتا ہے۔ (التوبۃ : 4۔7) 5۔ متقین کے لیے کامیابی ہے۔ (النباء :31) 6۔ متقین گھنے سایوں اور چشموں والی جنت میں ہوں گے۔ (المرسلات :41)