وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُوا كَافَّةً ۚ فَلَوْلَا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَائِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ
اور یہ بات مناسب نہیں ہے کہ تمام ہی مومنین جہاد کے لیے چلے جائیں (٩٧) ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ ہر جماعت کے کچھ لوگ نکلیں، تاکہ دین کی سمجھ حاصل کریں اور جب اپنی قوم کے پاس واپس لوٹیں تو انہیں اللہ سے ڈرائیں تاکہ وہ برے کاموں سے پرہیز کریں۔
فہم القرآن : ربط کلام : جہاد میں بھی فہم دین اور علم کی طرف توجہ مبذول رکھنے کا حکم۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جہاد فی سبیل اللہ ہوتا ہی وہ ہے جس کا مقصد اعلاء کلمۃ اللہ ہو یعنی اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے ہر محاذ پر کوشش کرنا۔ مگر جب کوئی قوم یا مجاہد مسلسل جہاد میں مصروف رہے گا تو دین کے بنیادی علم کی طرف اس قدر توجہ نہیں دے پائے گا۔ جس کا حصول ایک مسلمان کے لیے لازم ہے۔ اس لیے عین حالت جنگ میں حکم ہوا ہے کہ تم میں ایسی جماعت ضرور ہونی چاہیے جو جہاد میں مصروف کار ہونے کی بجائے صرف اور صرف دین سیکھنے سکھانے پر توجہ مبذول رکھے۔ تاکہ میدان کارزار سے واپس آنے والے مجاہد اپنے ایمان کی بیٹری چارج کرسکیں۔ اس کا دوسرا معنی یہ ہے کہ اگر پوری کی پوری قوم جہاد میں نکل کھڑی ہو تو علم و عرفان کے ادارے بند اور مملکت کے دیگر امور سست پڑجائیں گے۔ جس کا نتیجہ یہ نکل سکتا ہے کہ خارجی طور پر مسلمان پیش قدمی کر رہے ہوں گے۔ لیکن علمی، ایمانی اور اندرونی طور پر کمزور ہورہے ہوں گے۔ جس کی تلافی مشکل ہوجائے گی اس نقصان سے بچانے کے لیے حالت جہاد میں بھی اس اہم ترین فرض کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ اس آیت مبارکہ کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہے کہ میدان کارزار میں نبی اکرم (ﷺ) کے ساتھ نکلو، تاکہ تمہیں دین کی سمجھ بوجھ حاصل ہوتی رہے۔ دوسرے الفاظ میں حالت جنگ میں بھی تعلیم و تعلم اور تربیت کا خیال رکھنا چاہیے۔ فہم دین سے مراد صرف قرآن و حدیث یاد کرنا نہیں بلکہ اس کی حقیقی فہم سیکھنا بھی ضروری ہے۔ حقیقی فہم سے مراد دین کی روح پر عمل کرنا ہے۔ جو حدیث رسول کے علم کے بغیر ممکن نہیں۔ جہاں تک موجودہ فقہ کا تعلق ہے۔ اس میں وہی فقہ مسلمان کی ضرورت ہے جو قرآن و سنت کا ترجمان ہو۔ بعض علماء یہاں سے اپنی اپنی مروجہ فقہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہوئے آئمہ کی تقلید کو اپنے لیے لازم ثابت کرتے ہیں، حالانکہ چاروں آئمہ نے ایسی فقہ کی تردید کی ہے جو قرآن و سنت کے منافی ہو۔ تقلید کے بارے میں ائمہ کے اقوال : امام ابو حنیفہ (رض) کا قول : (اِذَا صَحَّ الْحَدِیْثُ فَھُوَ مَذْھَبِیْ) [ تفسیر مظہری] ” جب صحیح حدیث موجود ہو تو وہی میرا مذہب ہے۔“ امام مالک (رح) کا قول : امام مالک نے روضۃ النبی (ﷺ) کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : ” ہر شخص کی بات تسلیم کی جاسکتی ہے اگر درست ہو۔ اور اسے ٹھکرایا جا سکتا ہے جب درست نہ ہو۔ مگر اس روضے والے کی بات کو ترک نہیں کیا جاسکتا۔“ [ حیات امام مالک۔ از امام زہری] امام شافعی (رح) کا قول : (اَجْمَعَ الْمُسْلِمُوْنَ عَلٰی اَنَّ مَنِ اسْتَبَانَ لَہٗ سُنَّۃٌ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ (ﷺ) لَایَحِلُّ لَہٗ اَنْ یَّدَعَھَا لِقَوْلِ اَحَدٍ) [ اعلام المعوقین] ” اس بات پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ جب رسول کریم (ﷺ) کی سنت سامنے آجائے، پھر اس بات کی گنجائش نہیں رہتی کہ اسے کسی کے قول کی بنا پر حدیث رسول کو ترک کردیا جائے۔“ امام احمدبن حنبل (رح) کا قول : (مَنْ رَدَّ حَدِیْثَ رَسُوْلِ اللّٰہِ (ﷺ) فَھُوَ عَلٰی شَفَا ھَلَکَتِہِ)[ ابن جوزی] ” جس نے رسول کریم (ﷺ) کی حدیث کو رد کیا وہ تباہی کے کنارے پر پہنچ گیا۔“ علم سے پہلی مراد علم دین ہے۔ باقی علوم اضافی اور عصری ضرورت ہیں قرآن مجید ان کی بھی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ (عَنْ کَثِیرِ بْنِ قَیْسٍ قَالَ کُنْتُ جَالِسًا مَعَ أَبِی الدَّرْدَآءِ فِی مَسْجِدِ دِمَشْقَ فَجَآءَ ہُ رَجُلٌ فَقَالَ یَا أَبَا الدَّرْدَآءِ إِنِّیْ جِئْتُکَ مِنْ مَدِیْنَۃِ الرَّسُوْلِ (ﷺ) لِحَدِیْثٍ بَلَغَنِیْ أَنَّکَ تُحَدِّثُہُ عَنْ رَسُوْلِ اللَّہِ (ﷺ) مَا جِئتُ لِحَاجَۃٍ قَالَ فَإِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللَّہِ (ﷺ) یَقُوْلُ مَنْ سَلَکَ طَرِیْقًا یَطْلُبُ فِیْہِ عِلْمًا سَلَکَ اللَّہُ بِہِ طَرِیْقًا مِنْ طُرُقِ الْجَنَّۃِ وَإِنَّ الْمَلاَئِکَۃَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَہَا رِضًا لِطَالِبِ الْعِلْمِ وَإِنَّ الْعَالِمَ لَیَسْتَغْفِرُ لَہٗ مَنْ فِی السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِی الأَرْضِ وَالْحِیْتَانُ فِی جَوْفِ الْمَآءِ وَإِنَّ فَضْلَ الْعَالِمِ عَلَی الْعَابِدِ کَفَضْلِ الْقَمَرِ لَیْلَۃَ الْبَدْرِ عَلَی سَاءِرِ الْکَوَاکِبِ وَإِنَّ الْعُلَمَآءَ وَرَثَۃُ الأَنْبِیَآءِ وَإِنَّ الأَنْبِیَآءَ لَمْ یُوَرِّثُوْا دِیْنَارًا وَلاَ دِرْہَمًا وَرَّثُوا الْعِلْمَ فَمَنْ أَخَذَہُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ) [ رواہ ابوداؤد : کتاب العلم، باب الحث علی طلب العلم ] ” حضرت کثیر بن قیس کہتے ہیں میں ابو درداء کے ساتھ دمشق کی مسجد میں بیٹھا ہوا تھا ایک آدمی آیا اس نے کہا اے ابودرداء میں آپ کے پاس حدیث رسول (ﷺ) حاصل کرنے کے لیے مدینۃ الرسول سے آیا ہوں مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ اسے رسول اللہ (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں اس کے علاوہ میں کسی غرض سے نہیں آیا۔ حضرت ابو دردا (رض) نے کہا میں نے رسول اللہ (ﷺ) سے سنا آپ نے فرمایا جو شخص علم کی طلب کے لیے نکلا اللہ تعالیٰ اسے جنت کے راستہ پر چلا تا ہے اور فرشتے طالب علم کی تکریم کے لیے اپنے پر بچھاتے ہیں اور یقیناً عالم کے لیے آسمانوں و زمین کی ہر چیز یہاں تک کہ پانی میں مچھلیاں بخشش کی دعائیں کرتی ہیں اور بے شک عالم کو عابد پر اس طرح فضیلت حاصل ہے جیسے چودھویں رات کے چاند کو ستاروں پر اور یقیناً علماء انبیاء (علیہ السلام) کے وارث ہیں اور انبیاء (علیہ السلام) درہم و دینار کے وارث نہیں ہوتے وہ وراثت میں علم چھوڑتے ہیں جس نے اسے حاصل کیا اس نے بہت کچھ حاصل کیا۔“ ﴿وَلَقَدْ اٰتَیْنَا دَاوُوْدَ وَسُلَیْمَانَ عِلْمًا وَقَالَا الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِیْ فَضَّلَنَا عَلٰی کَثِیْرٍ مِنْ عِبَادِہِ الْمُؤْمِنِیْنَ ﴾[ النمل :15] ” ہم نے داؤد اور سلیمان کو علم عطا کیا اور ان دونوں نے کہا تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں بہت سے مومن بندوں پر فضیلت عطا فرمائی۔“ نبی اکرم (ﷺ) کو حکم : ﴿وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا﴾[ طٰہٰ:114] ” اور کہہ دیجیے اے میرے پروردگار ! میرے علم میں اضافہ فرما۔“ مسائل : 1۔ تعلیم و تعلم کے لیے کچھ لوگوں کا وقف ہونا ضروری ہے۔ 2۔ مجاہدین کے لیے تعلیم و تعلم کا اہتمام کرنا ضروری ہے۔ 3۔ لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے رہنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن : علم اور اس کے فہم کی فضیلت : 1۔ جہاد کے ساتھ ساتھ دین کا فہم حاصل کرنا لازم ہے۔ (التوبۃ:112) 2۔ صاحب علم اور جاہل برابر نہیں ہو سکتے۔ (الزمر :9) 3۔ اللہ تعالیٰ ایمانداروں اور علم والوں کے درجات بلند فرماتا ہے۔ (المجادلۃ:11) 4۔ اللہ تعالیٰ نے داؤد اور سلیمان کو علم عطا کیا۔ (النمل :15) 5۔ یقیناً اللہ سے علماء ہی ڈرتے ہیں۔ (فاطر :28) 6۔ یہ مثالیں ہم لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں عالم لوگ ہی ان کو سمجھتے ہیں۔ (العنکبوت :43)