لَّقَد تَّابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ فِي سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِن بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيغُ قُلُوبُ فَرِيقٍ مِّنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ ۚ إِنَّهُ بِهِمْ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ
اللہ نے نبی اور مہاجرین اور ان انصار کی طرف توجہ فرمائی جنہوں نے مشکل وقت (٩٤) میں ان کی پیروی کی، جبکہ ان میں سے ایک گروہ کے دلوں میں کجی آرہی تھی، پھر اللہ نے ان پر بھی توجہ فرمائی، بیشک وہ ان پر بہت ہی شفقت کرنے والا، نہایت مہربان ہے۔
فہم القرآن : (آیت 117 سے 119) ربط کلام : غزوہ تبوک سے پیچھے رہ جانے والے مخلص مسلمانوں کو معاف کرتے ہوئے اسی سورۃ کی آیت 106میں تین مخلص مسلمانوں کے معاملے کو مؤخر کرنے کا اعلان کیا گیا تھا اب ان کے بارے میں فیصلہ صادر ہوتا ہے۔ غزوہ تبوک سے پیچھے رہ جانے والے تین قسم کے لوگ تھے۔ 1۔ جسمانی طور پر معذور اور اسباب آمدورفت کے میسر نہ ہونے کی وجہ سے مجبور۔ 2۔ منافقین۔ 3۔ بلاعذر پیچھے رہ جانے والے دس صحابہ کرام (رض) تھے۔ دس میں سے سات ایسے صحابہ تھے جنہوں نے نبی اکرم (ﷺ) کی تبوک سے واپسی پر اپنی سزا خود تجویز کرتے ہوئے اپنے آپ کو مسجد کے ستونوں کے ساتھ جکڑ لیا تھا۔ جن کی توبہ کے بارے میں آیت ١٠٥ کی تفسیر میں تفصیل سے عرض ہوچکا ہے۔ تین صحابہ کی حالت اب بیان کرنے اور تینوں کی توبہ مستجاب فرمانے سے پہلے بطور استحسان ذکر کیا جارہا ہے کہ اللہ نے انصار و مہاجرین اور ان مجاہدوں پر بڑا فضل و کرم فرمایا جو انتہائی تنگی اور خوف کے عالم میں تبوک کے لیے نکلے حالانکہ کچھ صحابہ (رض) کے دل اس صورت حال میں انشراح محسوس نہیں کر رہے تھے۔ کیونکہ شدیدترین گرمی، فصلیں کٹنے پر آئی ہوئیں اور دشمن زبردست طاقتور مزید یہ کہ سفردشوار اور طویل ترین تھا۔ اس صورت میں محض اللہ کی توفیق اور اس کی نظر کرم کا نتیجہ تھا کہ اللہ نے اپنے نبی کو بروقت اور جرأت مندانہ فیصلہ کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ حالانکہ منافقوں نے مسلمانوں کے حوصلے پست کرنے کی ہر قسم کی کوشش کی تھی۔ لیکن رب کریم کا کرم شامل حال تھا۔ اس لیے انصار، مہاجرین اور دیگر مسلمان اس ولولہ اور جذبہ کے ساتھ نکلے کہ دنیا کی واحد سیاسی اور فوجی سپر طاقت مسلمانوں کا سامنا کرنے کی بجائے پسپائی میں اپنی خیر سمجھتی ہے۔ جسے بیان کرتے ہوئے صحابہ کرام (رض) کو ﴿لقد تاب اللہ﴾ کے الفاظ کا اعزاز بخشا گیا ہے۔ تین صحابہ (رض) نے نبی اکرم (ﷺ) کی تبوک سے واپسی پر صاف اور واضح بات کی کہ ہمارے پاس عذر نہیں محض سستی اور غفلت کی وجہ سے لشکر کے ساتھ شمولیت نہ کرسکے۔ رسول معظم (ﷺ) نے ان کے بارے میں اعلان کیا کہ ان کے ساتھ تمام مسلمان سوشل بائیکاٹ کریں۔ آپ کا حکم صادر ہوتے ہی مسلمانوں نے اتنا سخت بائیکاٹ کیا کہ حضرت کعب (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میں اپنے چچا زاد بھائی سے ملنے اس کے باغ میں پہنچا لیکن اس نے میرے ساتھ کلام نہیں کی۔ میں نے نہایت آزردگی کے ساتھ کہا کہ بھائی میں آپ کا رشتہ دار اور پکا مسلمان ہوں اس کے جواب میں اس نے صرف اتنی بات کہی اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں۔ لہٰذا میں تجھ سے کلام نہیں کرسکتا۔ حضرت کعب (رض) کہتے ہیں جب میں مسجد نبوی میں جاتا اور نبی اکرم (ﷺ) کی طرف دیکھتا تو آپ اپنا چہرۂ انور دوسری طرف پھیر لیتے تھے۔ کعب بن مالک، ھلال بن امیہ اور مرارہ بن ربیع (رض) اسی رنج و غم میں وقت گزار رہے تھے، یہاں تک کہ نبی اکرم (ﷺ) نے دوسرا حکم صادر فرمایا کہ ان کے ساتھ ان کی بیویاں بھی نہ رہیں۔ چنانچہ اس حکم پر عمل کرتے ہوئے دو کی بیویاں اپنے میکے چلی گئیں۔ حضرت ہلال بن امیہ کہتے ہیں کہ میری بیوی نے اللہ کے نبی کی خدمت میں جا کر عرض کی کہ میرا خاوند بوڑھا ہے میرے سوا اس کی خدمت کرنے والا کوئی نہیں اگر آپ اجازت فرمائیں تو میں روٹی پانی دینے کی حد تک اس کی خدمت کرتی رہوں۔ نبی کریم (ﷺ) نے اس کو اس حد تک خدمت کرنے کی اجازت فرمائی۔ ان تین صحابہ (رض) کی کیفیت اور اضطراب کا قرآن مجید ذکر کرتے ہوئے وضاحت کرتا ہے کہ تین پیچھے رہ جانے والوں پر زمین کشادہ ہونے کے باوجود تنگ ہوگئی یہاں تک کہ ان کے وجود بھی ان کے لیے بوجھ بن گئے اور انہیں ہر اعتبار سے یقین ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا ان کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں دوسرے الفاظ میں زندگی کے باوجود وہ اپنے آپ کو مردہ تسلیم کررہے تھے۔ اس کڑی اور شدید ترین آزمائش میں تینوں صحابہ پورے اترے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی کیونکہ اللہ توبہ قبول کرنے والا اور سب سے بڑا مہربان ہے۔ اس موقعہ پر یہ حکم نازل ہوا کہ مسلمانو! ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور سچے لوگوں کے ساتھ معاونت اور ان کی معیت اختیار کرو جس میں یہ تلقین پائی جاتی ہے کہ آئندہ ایسی غلطیوں سے بچو۔ سستی اور غفلت کی بجائے ہر حال میں حق و صداقت کا ساتھ دینے والوں کی رفاقت اختیار کرو۔ حضرت کعب (رض) پر ایک آزمائش یہ بھی آئی کہ غسّان کے حکمران نے ان کے پاس خط بھیجا کہ مجھے معلوم ہوا کہ آپ کے رسول نے آپ پر سختی کر رکھی ہے۔ میرا خط ملتے ہی آپ میرے پاس تشریف لے آئیں، یہاں آپ کو ہر طرح اقبال و مقام دیا جائے گا۔ حضرت کعب (رض) سمجھ گئے کہ یہ آزمائش پر آزمائش ہے۔ انہوں نے ٹھنڈی آہ بھری اور فرمایا کہ مجھ پر یہ وقت بھی آنا تھا کہ میرا دشمن مجھ سے اس بات کی توقع کرے کہ میں نبی کریم (ﷺ) کا ساتھ چھوڑ دوں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ایلچی کی موجودگی میں غسان کے حاکم کا خط آگ میں پھینک دیا اور فرمایا کہ اس خط کا میرے نزدیک یہی جواب ہوسکتا ہے۔ ان آیات سے صحابہ کرام (رض) کی نبی اکرم (ﷺ) کے ساتھ وارفتگی اور آپ کی تابعداری اور نبی اکرم (ﷺ) کی جماعت کے نظم و ضبط کا اندازہ ہوتا ہے کہ نبی اکرم (ﷺ) نے کن اخلاقی بنیادوں پر صحابہ کرام (رض) کو منظم کیا تھا۔ جس بنا پر وہ عرب و عجم کے حکمران بنے۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ ابِنْ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) عَلَیْکُمْ بالصِّدْقِ فَإِنَّ الصِّدْقَ یَھْدِیْ اِلٰی الِبِرِّ وَاِنَّ الْبِرَّ یَھْدِیْ اِلَی الْجَنَّۃِ وَمَایَزَال الرَّجُلُ یَصْدُقُ وَیَتَحَرَّی الصِّدْقَ حَتّٰی یُکْتَبَ عِنْدَ اللّٰہِ صِدِّیْقًا وَاِیَّاکُمْ وَاْلکَذِبَ فَاِنَّ الْکَذِبَ یَھْدِیْ اِلَی الْفُجُوْرِ وَاِنَّ الْفُجُوْرَ یَھْدِیْ اِلَی النَّارِ وَمَا یَزَال الرَّجُلُ یَکْذِبُ وَیَتَحَرَّی الْکَذِبَ حَتّٰی یُکْتَبَ عِنْدَ اللّٰہِ کَذَّاباً۔ (متفق علیہ) وَفِیْ رِوَایَۃٍ لِّمُسْلمٍ قَالَ اِنَّ الصّدْقَ بِرٌّ وَّ اِنَّ الِبرَّ یَھْدِیْ اِلَی الْجَنَّۃ، وَاِنَّ الْکَذِبَ فُجُوْرٌوَّ اِنَّ الفُجُوْرَ یَہْدِیْ اِلَی النَّارِ) [ رواہ مسلم : کتاب البروالصلۃ والاداب، باب قبیح الکذب وحسن الصدق] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم (ﷺ) نے فرمایا! تم سچائی اختیار کرو۔ اس لیے کہ سچائی نیکی کی جانب رہنمائی کرتی ہے۔ اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے۔ یہاں تک کہ آدمی سچی بات کہنے کا عادی اور سچائی کا طلب گار ہوجاتا ہے۔ وہ اللہ کے نزدیک سچا لکھ دیا جاتا ہے۔ اور تم جھوٹ سے کنارہ کش رہو۔ اس لیے کہ جھوٹ گناہ کی جانب لے جاتا ہے۔ اور گناہ دوزخ میں پہنچا دیتے ہیں۔ ایک شخص ہمیشہ جھوٹ بولتا اور جھوٹ کا عادی ہوجاتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے ہاں کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔ مسلم کی ایک روایت میں ہے، بلا شبہ سچ بولنا نیک کام ہے۔ اور نیکی جنت کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ اور جھوٹ بولنا برا کام ہے اور برا کام دوزخ کی طرف لے جاتا ہے۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہر حال میں تسلیم کرنا چاہیے۔ 2۔ انسان کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی طرف ہی رجوع کرنا چاہیے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ بہت زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ 4۔ انسان کو ہمیشہ سچ کا ساتھ دینا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ نہایت مہربان اور رحم کرنے والا ہے : 1۔ اللہ بڑا شفیق اور رحم کرنے والا ہے۔ (التوبۃ:117) 2۔ اللہ توبہ قبول کرنے اور رحم فرمانے والا ہے۔ (التوبۃ:118) 3۔ اللہ سے بخشش طلب کرو بے شک وہ بخشنے اور رحم کرنے والا ہے (المزمل :20) 4۔ اللہ سے ڈرو بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔ (الحجرات :12) 5۔ بے شک اللہ نرمی کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔ (الطور :28) 6۔ میرا رب رحم کرنے اور محبت فرمانے والا ہے۔ (ہود :90) 7۔ میرے رب مجھے معاف اور مجھ پر رحم فرما تو بہترین رحم کرنے والا ہے۔ (المومنون :118)