سورة التوبہ - آیت 114

وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ إِلَّا عَن مَّوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِّلَّهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ ۚ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَأَوَّاهٌ حَلِيمٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور ابراہیم نے اپنے باپ کے لیے دعائے مغفرت صرف اس وعدے کو پورا کرنے کے لیے کیا تھا جو انہوں نے اس سے کیا تھا لیکن جب انہیں یقین ہوگیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو اس سے کنارہ ہوگئے، بیشک ابراہیم دردمند اور بردبار تھے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : مشرک کے حق میں دعا نہ کرنے کی ٹھوس دلیل اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے حوالے سے ایک بات کی وضاحت۔ یہودو نصارٰی اور عربوں میں یہ بات معروف تھی کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے والد دین حنیف پر نہیں تھے اس کے باوجود حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ کے لیے استغفار کی دعا کی تھی۔ جس کی اس طرح وضاحت کی جارہی ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ سے اس کے حق میں استغفار کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ کیونکہ ابراہیم (علیہ السلام) نہایت ہی خیر خواہ، نرم خو اور مہربان طبیعت کے مالک اور بڑے حوصلہ مند، حلیم الطبع تھے۔ جس بنا پر انھوں نے اپنے باپ کی زیادتیوں کے باوجود از راہ ہمدردی اور پدرانہ آداب کے تحت وعدہ کیا تھا کہ میں آپ کے لیے دعائے مغفرت کروں گا۔ قرآن مجید اس بات کی صراحت کرتا ہے کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) پر واضح ہوگیا کہ میرا باپ اللہ کا دشمن ہے تو وہ اس سے بیزار ہوگئے سورۃ الممتحنہ آیت ٤ میں مزید وضاحت کی گئی ہے کہ لوگو ! تمھارے لیے ابراہیم (علیہ السلام) بہترین نمونہ ہیں لیکن ان کا اپنے باپ کے ساتھ استغفار کرنے کا وعدہ کرنا تمھارے لیے دلیل اور نمونہ نہیں ہوسکتا۔ ابراہیم (علیہ السلام) کے باپ کو عدواً للہ قرار دیا گیا ہے جس کا صاف معنیٰ ہے کہ مشرک اللہ کا دشمن ہوتا ہے اور کسی مومن کا یہ عقیدہ اور اس کی غیرت یہ گوارا نہیں کرسکتی کہ وہ اللہ کے دشمن کی سفارش اللہ کے سامنے پیش کرے یہ عقل حیا اور دینی غیرت کے منافی بات ہے اس لیے نبی آخر الزمان (ﷺ) اور تمام مسلمانوں کو مشرک کے حق میں استغفار کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے باپ کا انجام : (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ () قَالَ یَلْقٰی اِبْرَاھِیْمُ اَبَاہُ اٰزَرَ یَوْمَ الْقِیَا مَۃِ وَعَلٰی وَجْہِ اٰزَرَ قَتَرَۃٌ وَغَبَرَۃٌ فَیَقُوْلُ اِ بْرَاھِیْمُ اَلَمْ اَقُلْ لَّکَ لَاتَعْصِنِیْ فَیَقُوْلُ لَہٗ اَبُوْہُ اَ لْیَوْ مَ لَا اَعْصِیْکَ فَیَقُوْلُ اِبْرَاھِیْمُ یَارَبِّ اِنَّکَ وَعَدْتَّنِیْ اَنْ لَّا تُخْزِیَنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَ فَاَیُّ خِزْیٍ اَخْزٰی مِنْ اَبِیْ الْاَبْعَدِ فَیَقُوْلُ اللّٰہُ تَعَالٰی اِنِّی حَرَّمْتُ الْجَنَّۃَ عَلَی الْکَافِرِیْنَ ثُمَّ یُقَالُ لِاِبْرَاھِیْمَ اُنْظُرْ مَا تَحْتَ رِجْلَیْکَ فَیَنْظُرُ فَاِذَاھُوَ بِذِیْخٍ مُتَلَطِّخٍٍ فَیُؤْخَذُبِقَوَائِمِہٖ فَیُلْقٰی فِیْ النَّارِ) [ رواہ البخاری : باب قول اللہ ﴿وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا﴾] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (ﷺ) نے فرمایا : قیامت کے دن ابراہیم (علیہ السلام) اپنے والد آزر سے ملیں گے اس کے چہرے پر سیاہی اور گردو غبار ہوگا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ان سے فرمائیں گے۔ کیا میں نے تمہیں دنیا میں نہیں کہا تھا کہ میری نافرمانی نہ کرنا؟ ان کے والد جواب دیں گے آج کے دن میں آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا۔ اس پر ابراہیم (علیہ السلام) اپنے رب کے حضور عرض کریں گے اے میرے پروردگا ر! بے شک آپ نے مجھ سے وعدہ فرمایا تھا کہ حشر کے دن آپ مجھ کو رسوا نہیں کریں گے اب اس سے بڑھ کر کیا ذلت ہو سکتی ہے کہ میرا باپ ذلیل ہواجا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے‘ بلا شبہ میں نے کافروں پر جنت حرام کردی ہے پھر ابراہیم (علیہ السلام) سے کہا جائے گا اپنے قدموں کی طرف دیکھو۔ وہ دیکھیں گے تو آپ کا باپ گندگی میں لتھڑا ہوا بجو ہوگا‘ جس کو ٹانگوں سے پکڑ کر دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔“ مسائل : 1۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے وعدہ کی بنیاد پر اپنے باپ کے لیے مغفرت کی دعا کی تھی۔ 2۔ مشرک اللہ کا دشمن ہوتا ہے۔ 3۔ عقیدہ توحید کے ساتھ دشمنی پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے والد سے براءت کا اعلان کیا۔ 4۔ حضرت ابراہیم نہایت نرم دل انسان تھے۔ تفسیر بالقرآن : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اوصاف حمیدہ : 1۔ ابراہیم نرم دل اور بردبار تھے۔ (التوبۃ:114) 2۔ ابراہیم نہایت راست باز نبی تھے۔ (مریم :41) 3۔ بے شک ابراہیم بڑے حلیم، بڑے خیر خواہ اور نرم دل تھے۔ (ہود :75) 4۔ ابراہیم ہمارے مومن بندوں میں سے تھے۔ (الصٰفت :111) 5۔ ابراہیم معبودان باطل کے انکاری اور براءت کا اظہار کرتے تھے۔ (الممتحنہ :4) 6۔ ابراہیم کو اللہ نے ابتداء سے ہی ہدایت سے سرفراز فرمایا تھا۔ (الانبیاء :51)