وَإِذِ ابْتَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ ۖ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۖ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ
اور (یاد کرو) جب ابراہیم (١٨٢) کو ان کے رب نے چند باتوں (١٨٣) کے ذریعہ آزمایا، تو انہوں نے ان سب کو پورا کردکھلایا، اللہ تعالیٰ نے کہا، میں تمہیں لوگوں کا امام بنانے والا ہوں، کہا : اور میری اولاد میں سے بھی۔ تو اللہ نے فرمایا : ظالم لوگ (١٨٤) میرے اس وعدہ میں داخل نہیں ہوں گے
فہم القرآن : ربط کلام : بنی اسرائیل کے جد امجد ابراہیم (علیہ السلام) کا کردار اور ان کا اللہ تعالیٰ کی آزمائشوں میں پورا اترنے کے بعد مقام ومرتبہ۔ اے بنی اسرائیل آج تم اپنے فرسودہ نظریات‘ مذہبی تعصبات اور معمولی مفادات کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔ تمہارے جد امجد ابراہیم (علیہ السلام) کی شان تو یہ تھی کہ جب اس کے رب نے اسے امتحانات کے ذریعے آزمایا تو اس نے اولاد‘ وطن‘ عزت و اقبال گویا کہ ہر چیز اللہ کے راستے میں قربان کردی۔ اس طرح وہ آزمائشوں سے گزر کر اپنے رب کے ہاں سرخرو ہوئے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بھاری آزمائشوں کے لیے چند کلمات کا لفظ استعمال فرما کر اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے مقابلے میں یہ بڑے مختصر اور معمولی امتحانات تھے۔ چند کلمات کے الفاظ میں یہ راز بھی مضمر ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہے تو انسان کو ایک ایک نعمت کے بدلے آزما لے تاکہ دنیا میں ہی فیصلہ ہوجائے کے کون سا انسان کس نعمت کا قدر دان اور کس کی ناقدری کرتا ہے۔ آزمائش کا مقصد بندے کو تکلیف دینا نہیں ہوتا بلکہ اسے اور اس کے حوالے سے دوسروں کو نعمتوں کا احساس دلانا، اس کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا اور آزمائشوں کی گزر گاہ سے گزار کردنیا اور آخرت کی ترقیوں سے سرفراز کرنا ہوتا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جب ابتلا کی دشوار گزار گھاٹیوں کو عبور کرچکے تو ان کو رہتی دنیا تک کے لوگوں کا قائد اور امام بنا دیا گیا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پدری اور فطری جذبے کا اظہار کرتے ہوئے اپنے رب کے حضور عرض کی کہ یہ اعزازواکرام اور منصب و مقام میری اولاد کو بھی ملنا چاہیے۔ جواباً ارشاد ہوا کہ منصب امامت اور حقیقی عزت ظالموں کو نہیں ملا کرتی۔ لہٰذا فاسق و فاجر لوگوں کے ساتھ ہمارا وعدہ نہیں ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد جس قدر شریعتیں نازل ہوئیں اور جتنے انبیاء مبعوث ہوئے وہ سب کے سب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے طریقے کے پابند کردیئے گئے۔ یہاں تک کہ حضرت محمد مصطفی {ﷺ}کو بھی یہی حکم ہوا کہ آپ بھی ابراہیم (علیہ السلام) کے طریقے کو اپنے اور اپنی امت کے لیے لازم ٹھہرائیں۔ ﴿ثُمَّ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ اَنِ اتَّبِعْ مِلَّۃَ اِبْرٰھِیْمَ حَنِیْفًاوَّمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ﴾ [ النحل :123] ” پھر ہم نے تیری طرف وحی کی کہ یکسو رہنے والے ابراہیم کی ملت کی اتباع کرو اور وہ مشرک نہ تھا۔“ ﴿قُلْ صَدَقَ اللّٰہُ فَاتَّبِعُوْا مِلَّۃَ اِبْرٰھِیْمَ حَنِیْفًا وَّ مَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ﴾ [ آل عمران :95] ” فرمادیں اللہ نے سچ فرمایا ہے لہٰذا تمہیں ابراہیم کے طریقہ کی اتباع کرنی چاہیے جو اللہ ہی کے ہوگئے تھے اور مشرک نہیں تھے۔“ مسائل : 1۔ ابراہیم (علیہ السلام) تمام امتحانات میں کامیاب ہوئے۔ 2۔ ابراہیم (علیہ السلام) کو آزمائشوں میں سرخروئی کے بدلے دنیا کی امامت عطا ہوئی۔ 3۔ حقیقی عزت و سرفرازی ظالم لوگوں کو نصیب نہیں ہوا کرتی۔ تفسیر بالقرآن: حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے امتحانات اور ان کا مقام ومنزلت : 1۔ ( ابرہیم (علیہ السلام) کا اسماعیل (علیہ السلام) کو قربانی کے لیے پیش کرنا) بہت بڑا امتحان تھا۔ (الصٰفٰت :106) 2۔ ابراہیم (علیہ السلام) کو توحید کی خاطر آگ میں پھینکا جانابہت بڑی آزمائش تھا۔ (الانبیاء :68) 3۔ ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنی بیوی اور نو مولود بچے کو بے آب وگیاہ وادی میں چھوڑ کر آنا بہت بڑی آزمائش تھا۔ (ابرہیم :37) 4۔ ابراہیم (علیہ السلام) امت محمدیہ کے لیے نمونہ ہیں۔ (الممتحنۃ:4) 5۔ ابراہیم (علیہ السلام) نبی کریم {ﷺ}کے مقتدٰی ہیں۔ (النحل :123) 6۔ ابراہیم (علیہ السلام) امت کے مقتدٰی ہیں۔ (آل عمران :95) 7۔ ابراہیم (علیہ السلام) اکیلے ہی ایک جماعت تھے۔ (النحل :120) 8۔ ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے دوست بنایا۔ (النساء :125) 9۔ ابراہیم (علیہ السلام) یہودی تھے نہ عیسائی۔ (آل عمران :67) 10۔ ابراہیم (علیہ السلام) اور اسماعیل (علیہ السلام) بیت اللہ کے بانی ہیں۔ (البقرۃ:127) 11۔ ابراہیم (علیہ السلام) پر مصحف نازل کیے گئے۔ (الاعلیٰ:19) 12۔ ابراہیم (علیہ السلام) بردبار اور نرم خو تھے۔ ( التوبۃ:114)