يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ مَا قَالُوا وَلَقَدْ قَالُوا كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَكَفَرُوا بَعْدَ إِسْلَامِهِمْ وَهَمُّوا بِمَا لَمْ يَنَالُوا ۚ وَمَا نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْنَاهُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ مِن فَضْلِهِ ۚ فَإِن يَتُوبُوا يَكُ خَيْرًا لَّهُمْ ۖ وَإِن يَتَوَلَّوْا يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ عَذَابًا أَلِيمًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۚ وَمَا لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِن وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ
منافقین اللہ کی قسم (56) کھاتے ہیں کہ انہوں نے کوئی بات نہیں کہی ہے، حالانکہ کفر کا کلمہ اپنی زبان پر لا چکے ہیں، اور اسلام لانے کے بعد دوبارہ کافر ہوگئے ہیں، اور وہ کام کرنا چاہا جو وہ نہ کرسکے (57) اور انہوں نے اس وجہ سے (رسول اللہ) پر عیب لگایا کہ اللہ اور اس کے رسول نے اللہ کے فضل سے انہیں مالدار (58) بنا دیا تھا، پس اگر وہ توبہ کرلیں گے تو ان کے لیے بہتر ہوگا، اور اگر وہ منہ پھیر لیں گے تو اللہ انہیں دنیا و آخرت میں دردناک عذاب دے گا، اور زمین پر کوئی ان کا یار و مددگار نہیں ہوگا
فہم القرآن : ربط کلام : منافقین کی کذب بیانی، جھوٹی قسمیں اور احسان فراموشی۔ پہلے بھی عرض کیا ہے کہ منافق اپنی منافقت کی وجہ سے اخلاقی طور پر اندر سے کھوکھلا ہوتا ہے اور اسے اپنی بات پر قرار اور اعتماد نہیں ہوتا۔ اس کے جھوٹے پن کی وجہ سے لوگ بھی اس پر اعتماد نہیں کرتے۔ جس کی وجہ سے وہ اپنا اعتماد قائم کرنے کے لیے جھوٹی قسموں کا سہارا لیتا ہے۔ یہی صورت حال اللہ کے رسول کے دور میں منافقین کی تھی جب بھی ان کی منافقت کا پر دہ چاک ہوتا تو وہ اللہ کے عظیم اور پاک نام کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتے۔ غزوۂ تبوک کے موقع پر انھوں نے کئی بار ایسا کیا۔ جس کے لیے انھیں کہا گیا ہے تم تو وہ لوگ ہو کہ اسلام قبول کرنے کے باوجود بار بار کفر کی حرکات اور باتیں کرتے ہو اس لیے اب تمھاری قسموں پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ پھر تم وہ لوگ ہو کہ تم نے ایسے کام کا ارادہ کیا جس کو تم نہ کرسکے یہ اشارہ اس سازش کی طرف ہے جو غزوۂ تبوک سے واپسی پر دس منافقین نے اپنے چہروں پر کپڑے لپیٹ کر رات کے وقت سفر کے دوران اللہ کے رسول کو قتل کرنے کی سازش کی تھی جب آپ نے انھیں پہچان کر للکارا تو وہ لشکر میں گھس گئے آپ نے ان کے نام حضرت حذیفہ (رض) کو بتلاتے ہوئے فرمایا کہ راز رکھنا اور انھیں نظر انداز کردیا جائے۔ منافقین کی سازشیں اور شرارتیں اس لیے تھیں کہ اللہ اور اس کے رسول نے ان سے بار بار درگزر کیا۔ ان میں اکثر غریب اور کنگلے تھے مال غنیمت ملنے پر یہ دولت مند ہوئے جس کی وجہ سے یہ منافقت میں آگے ہی بڑھتے گئے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ان کو ان کی دولت سمیت زمین میں دھنسا دیا جاتا مگر اس کے باوجود اللہ تعالیٰ اپنی بے پناہ شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ سب کچھ کرنے کے باوجود اگر یہ لوگ اب بھی توبہ کرلیں تو ان کے لیے میری طرف سے خیر کے دروازے کھول دیے جائیں گے۔ اگر پھر بھی باز نہ آئیں تو اللہ تعالیٰ انھیں دنیا اور آخرت میں اذیت ناک عذاب میں مبتلا کرے گا اور ان کے لیے کوئی خیر خواہ اور مددگار نہیں ہوگا۔ مسائل : 1۔ منافق اپنا نفاق چھپانے کے لیے جھوٹی قسموں کا سہارالیتے ہیں۔ 2۔ منافق ظاہری طور پر ایمان لانے کے بعد کفر کرتے ہیں۔ 3۔ منافقین نے آپ (ﷺ) کو شھید کرنے کا منصوبہ بنایا جس میں وہ بری طرح ناکام ہوئے۔ 4۔ منافق بھی سچے دل سے توبہ کرلے تو اس کی توبہ قبول ہوجاتی ہے۔ 5۔ رسول اللہ (ﷺ) کی اطاعت سے منہ موڑنے والوں کے لیے دنیا وآخرت میں دردناک عذاب ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ اور اس کے رسول سے منہ پھیرنے والوں کی سزا : 1۔ دنیا اور آخرت میں ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا اور ان کا دنیا میں کوئی دوست اور مددگار نہیں ہوگا۔ (التوبۃ:74) 2۔ اللہ اور اس کے رسول سے منہ پھیرنے والوں کو دوزخ میں داخل کیا جائے گا اور ان کے لیے رسوا کن عذاب ہوگا۔ (النساء :14) 3۔ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والے جہنم میں ڈالے جائیں گے۔ (النساء :115) 4۔ قیامت کے دن مجرم اپنے ہاتھوں کو کاٹیں گے۔ (الفرقان :27) 5۔ اللہ اور اس کے رسول کے احکام سے منہ موڑنے والے فتنے اور عذاب الیم میں مبتلا ہوں گے۔ (النور :63) 6۔ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرنے والے ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ (الجن :23)