يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَكُمْ لِيُرْضُوكُمْ وَاللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَقُّ أَن يُرْضُوهُ إِن كَانُوا مُؤْمِنِينَ
وہ لوگ تمہارے سامنے اللہ کی قسم (48) کھاتے ہیں تاکہ تمہیں خوش رکھیں، حالانکہ اگر وہ مومن ہوتے تو اللہ اور اس کے رسول زیادہ حقدار تھے کہ انہیں خوش رکھتے
فہم القرآن : (آیت 62 سے 63) ربط کلام : منافقین کے کردار اور گفتار کا بیان جاری ہے۔ منافق محض اپنی چرب لسانی سے مومنوں کو راضی کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ انھیں اللہ اور اس کے رسول کو راضی کرنا چاہیے تھا۔ اگر اللہ اور اس کا رسول راضی ہوجاتا ہے تو مومن خود بخود راضی ہوجاتے لیکن اے منافقو! تمھاری حالت یہ ہے کہ جو کچھ بھی کر رہے ہو وہ کہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ مقابلہ کرنے کے مترادف ہے۔ یاد رکھو تمھیں دنیا میں مہلت دی جا رہی ہے لیکن بالآخر تم نے ہمیشہ جہنم میں جلنا ہے اس سے بڑھ کر کوئی اور تکلیف اور رسوائی نہیں ہو سکتی۔ منافق کو منافق اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ دوہرے کردار اور گفتار کا مالک ہوتا ہے۔ منافقین جب نبی اکرم (ﷺ) کی شان میں کسی گستاخی کا ارتکاب کرتے تو مسلمانوں کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ان کے سامنے قسمیں اٹھا اٹھا کر کہتے کہ ہماری بات کا فلاں شخص نے غلط مفہوم لیا ہے ہم تو اللہ کے رسول کے بارے میں کسی گستاخی کا تصور نہیں کرسکتے۔ اس طرح وہ مسلمانوں کو خوش کرنے کی کوشش کرتے اس پر انھیں سمجھایا گیا کہ اگر تم سچا ایمان رکھتے ہو تو اللہ اور اس کا رسول زیادہ حق دار ہیں کہ تم ان کو راضی کرو کیونکہ اللہ اور اس کا رسول تم پر راضی ہوں گے۔ تو صحابہ کرام (رض) خود بخود راضی ہوجائیں گے یہاں ضمیر تثنیہ کی آنی چاہیے تھی۔ لیکن ضمیر واحد کی لا کر ثابت کیا ہے کہ اصل رضا مندی اللہ تعالیٰ کی ہونی چاہیے رسول تو اپنے رب کی رضا کا پابند ہوتا ہے اور مومن رسول کے تابع ہوتے ہیں اس لیے اسی سورۃ کی آیت ٩٦ میں وضاحت فرمائی کہ نبی (ﷺ) اگر منافقوں پر کسی وجہ سے راضی ہو بھی جائیں تو اللہ ان پر ہرگز راضی نہ ہوگا۔ جہنم کی سزا : (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) قَالَ نَارُکُمْ جُزْءٌ مِنْ سَبْعِینَ جُزْءً ا مِنْ نَارِ جَہَنَّمَ قیلَ یَا رَسُول اللّٰہِ إِنْ کَانَتْ لَکَافِیَۃً قَالَ فُضِّلَتْ عَلَیْہِنَّ بِتِسْعَۃٍ وَسِتِّینَ جُزْءً ا کُلُّہُنَّ مِثْلُ حَرِّہَا) [ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب صفۃ النار] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں ایک دفعہ رسول اکرم (ﷺ) نے فرمایا تمھاری دنیاکی آگ جہنم کی آگ کے سترویں درجے پر ہے۔ رسول معظم (ﷺ) سے عرض کیا گیا آگ ہی کافی تھی۔ آپ نے فرمایا وہ اس سے انہتر درجے زیادہ تیز ہے اور ہر درجہ دوسرے سے زیادہ تیز ہے۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ أُوقِدَ عَلَی النَّارِ أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی احْمَرَّتْ ثُمَّ أُوقِدَ عَلَیْہَا أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی ابْیَضَّتْ ثُمَّ أُوقِدَ عَلَیْہَا أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی اسْوَدَّتْ فَہِیَ سَوْدَاءُ مُظْلِمَۃٌ) [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ جہنم] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا ایک ہزار سال تک دوزخ کی آگ کو بھڑکا یا گیا حتیٰ کہ وہ سرخ ہوگئی پھر اس کو ایک ہزار سال تک بھڑکا یا گیا یہاں تک کہ وہ سفید ہوگئی پھر اس کو ایک ہزار سال تک بھڑکایا گیا حتیٰکہ وہ سیاہ ہوگئی اب اس کا رنگ سیاہ ہے۔“ (عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) فِی قَوْلِہٖ ﴿وَیُسْقٰی مِنْ مَّاءٍ صَدِیدٍ یَتَجَرَّعُہٗ﴾ قَالَ یُقَرَّبُ إِلَیْہِ فَیَتَکَرَّہُہٗ فَإِذَا دَنَا مِنْہُ شُوِیَ وَجْہُہٗ وَوَقَعَتْ فَرْوَۃُ رَأْسِہٖ وَإِذَا شَرِبَہٗ قَطَّعَ أَمْعَاءَ ہٗ حَتَّی خَرَجَ مِنْ دُبُرِہٖ) [ رواہ احمد ] ” حضرت ابو امامہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا جہنمیوں کو کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا وہ ان کو جلا دے گا۔ نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا وہ ان کے قریب کیا جائے گا تو وہ اس کو نا پسند کرے گا جونہی وہ اس کے قریب ہوگا تو اس کا چہرہ جھلس جائے گا اور اس کے سر کے بال بھی گر جائیں گے اور جب وہ پیے گا تو اس کی آنتیں کٹ جائیں گی یہاں تک کہ وہ پانی اس کی پشت سے نکل جائے گا۔“ مسائل : 1۔ اللہ کی رضا میں نبی (ﷺ) اور مومنوں کی رضا ہے۔ 2۔ انسان کو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ 3۔ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی مخالفت کرنے والے ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔