يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ
اے بنی اسرائیل، میرے اس احسان کو یاد کرو جو میں تم پر کیا، اور (خاص طور پر اس احسان کو کہ) میں نے تمہیں اس دور کے تمام جہاں والوں پر فضیلت دی
فہم القرآن : ربط کلام : سورۃ البقرۃ میں اہل کتاب بنی اسرائیل کو تیسری بار خطاب کیا جار ہا ہے۔ جس میں بیت اللہ کی تاریخ‘ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعاؤں کا ذکر خاص کر اس دعا کا ذکر ہے جس میں انہوں نے مکہ میں مبعوث ہونے والے آخری پیغمبر کے لیے اللہ کے حضور کی تھی۔ اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کو تیسری مرتبہ اپنی عطا کردہ نعمتیں اور فضیلتیں یاد کرواکر احساس دلا رہا ہے کہ تم جس عزت رفتہ کے حصول کے خواہش مند ہو وہ نبی آخر الزماں {ﷺ}کی مخالفت کے راستے پر چل کر حاصل نہیں ہوسکتی۔ آج تم مسلمانوں کے خلاف ایک دوسرے کے معاون اور مددگار بن رہے ہو اس دن کی ہولناکیاں اپنے احاطۂ خیال میں لاؤ جس دن تم رائی کے دانے کے برابر بھی ایک دوسرے کی مدد نہیں کر سکوگے۔ تمہارے لیے یہ بات کہیں بہتر ہے کہ تم خواہ مخواہ مخالفت اور نا شکری کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے اپنے جدِّ امجد کا راستہ اختیار کرو اور خاتم المرسلین {ﷺ}کی اتباع کروتاکہ تمہیں پہلے کی طرح عزت وعظمت سے نوازا جائے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے کہ میرے بندے یعقوب (علیہ السلام) کے فرزندو اور میرے خلیل ابراہیم (علیہ السلام) کے خانوادے کے ساتھ تعلق رکھنے والو ! سنو، غور کرو اور میری نعمتوں کو ایک دفعہ پھر اپنے ذہن میں تازہ کرو جو میں نے دنیا کے تمام لوگوں سے بڑھ کر تمہیں عنایت فرمائی تھیں۔ اگر تم عزت رفتہ اور انعامات گزشتہ کا اعادہ اور حصول چاہو تو پھر یوم احتساب سے پہلے اپنے کردار پر نظر ثانی کرو۔ چہ جائے کہ وہ دن وارد ہوجائے جب عزیز اپنے عزیز‘ ماں اپنے جگر گوشے اور باپ اپنے لخت جگر کو کوئی فائدہ نہ پہنچا سکے گا اور نہ ہی دولت مند کی دولت اس کے کام آئے گی اور نہ کسی کی سفارش اور اثر و رسوخ دوسرے کا معاون اور مددگار ثابت ہو سکے گا۔ اسی کے پیش نظر رسول کریم {ﷺ}نے اپنے جگر گوشہ بتول حضرت فاطمہ {رض}کو مخاطب کرتے ہوئے نصیحت فرمائی تھی : (یَافَاطِمَۃَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ یَاصَفِیَّۃَ بِنْتَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ یَابَنِیْ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لَاأَمْلِکُ لَکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا سَلُوْنِیْ مِنْ مَّالِیْ مَا شِئْتُمْ) [ رواہ مسلم : کتاب الإیمان، باب فی قولہ وأنذر عشیرتک الأقربین[ ” اے محمد کی بیٹی فاطمہ اور عبدالمطلب کی بیٹی صفیہ اور اے عبدلمطلب کی اولاد میں تمہارے لیے اللہ کے ہاں کسی چیز کا مالک نہیں ہوں گا البتہ میرے مال میں سے جتنا چاہو مطالبہ کرسکتے ہو۔“ ﴿یَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَوْ یَفْتَدِیْ مِنْ عَذَابِ یَوْمِئِذٍ بِبَنِیْہِ۔ وَصَاحِبَتِہٖ وَأَخِیْہِ۔ وَفَصِیْلَتِہِ الَّتِیْ تُؤْوِیْہِ وَمَنْ فِی الْأَرْضِ جَمِیْعًا ثُمَّ یُنْجِیْہِ۔ کَلَّا﴾ [ المعارج : 11تا15] ” مجرم چاہے گا کہ اس دن بیٹوں کا فدیہ دے کر عذاب سے بچ جائے اور اپنی بیوی، اپنے بھائی اور اپنے اس کنبہ کا جو اسے پناہ دیا کرتے تھے اور جو کچھ بھی زمین میں ہے سب کچھ دے کر نجات پالے ہرگز ایسا نہیں ہوگا۔“ ﴿اَلْأَخِلَّآءُ یَوْمَئِذٍ م بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا الْمُتَّقِیْنَ﴾ [ الزخرف :67] ” اس دن متقین کے علاوہ سب دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیں گے۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو دنیا کی نعمتوں اور عظمتوں سے سرفراز فرمایا تھا۔ 2۔ قیامت کے دن مجرموں کی کوئی کسی لحاظ سے مدد نہیں کرسکے گا۔ 3۔ انسان کو ہر وقت اپنے دل میں قیامت کا ڈر رکھنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن : قیامت کے دن فدیہ اور سفارش قبول نہ ہوگا : 1۔ کسی جان سے قیامت کے دن فدیہ قبول نہ ہوگا۔ (البقرہ :48) 2۔ کفار سے عذاب کے بدلے زمین بھر سونا بھی قبول نہ ہوگا۔ (آل عمران :91) 3۔ ہر جان اپنا بوجھ خود اٹھائے گی۔ (النجم :38) 4۔ قیامت کے دن کسی کی چالیں کفایت نہ کریں گی۔ (الطور :46)