لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِن قَبْلُ وَقَلَّبُوا لَكَ الْأُمُورَ حَتَّىٰ جَاءَ الْحَقُّ وَظَهَرَ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ كَارِهُونَ
انہوں نے پہلے بھی (غزوہ احد اور غزوہ خندق میں) فتنہ (37) پیدا کرنا چاہتا تھا، اور معاملمات کو آپ کے لیے الٹتے پلٹتے رہے تھے، یہاں تک کہ حق سامنے آگیا اور اللہ کا حکم غالب ہوا، اگرچہ وہ نہیں چاہتے تھے
فہم القرآن : (آیت 48 سے 49) ربط کلام : منافقوں کی مزیدعادات کا بیان جاری ہے۔ اس سے پہلے یہ فرمایا گیا ہے کہ اگر منافق لشکر اسلام کے ساتھ شامل ہوتے تو فتنہ پر وری کے سوا کسی بات میں اضافہ نہ کرتے کیونکہ یہ پہلے بھی مختلف موقعوں پر شر انگیزی اور فتنہ پردازی کرچکے ہیں۔ جس کی مثالیں احد، احزاب، فتح مکہ کے حوالے سے دی جا چکی ہیں ان کی ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ معاملات کو گڑ بڑ کردیا جائے اور مسلمان کامیابی کی بجائے ناکامیوں سے دو چار ہوتے رہیں۔ لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا مسلمانوں پر فضل ہے کہ اس نے منافقوں اور کفار کی کوئی سازش بھی کارگر نہ ہونے دی اور وہی کچھ ہوا جس کا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سے وعدہ کر رکھا تھا۔ منافقین نبی (ﷺ) اور مسلمانوں کی کامیابیوں پر خوش ہونے کی بجائے ہمیشہ اسے ناپسند کرتے رہے۔ ان میں ایسا شخص بھی ہے جو یہ کہتا ہے کہ مجھے جنگ کے فتنہ میں نہ ڈالیے۔ کیا اسے خبر نہیں کہ یہ تو پہلے ہی منافقت کے فتنہ میں مبتلا ہوچکا ہے درحقیقت منافقت کفر کی ہی ایک صورت ہے یقیناً جہنم کفر کرنے والوں کو گھیرلے گی۔ ایک شخص سے مراد ایک کردار ہے۔ یہاں مفسرین نے منافقوں کے سردار جد بن قیس کا ذکر کیا ہے کہ وہ نبی محترم (ﷺ) کے پاس آکر بڑی معصومیت کے ساتھ کہنے لگا کہ آپ مجھے تبوک کے محاذ سے پیچھے چھوڑجائیں اگر میں آپ کے ساتھ گیا تو رومی دوشیزاؤں کو دیکھ کر میرا ایمان خطرے میں پڑجائے گا۔ گویا کہ جنگ سے جان بچانے کے لیے اس نے مصنوعی تقدس کا بہانہ بنایا جس پر کہا گیا کہ کیا ایسے لوگ نہیں سوچتے کہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ منافقت کرنے سے بڑھ کر آدمی کے لیے کوئی اور آزمائش اور فتنہ کیا ہوسکتا ہے؟ ظاہر ہے منافقت سے بڑھ کر ایمان برباد کردینے والا کوئی اور فتنہ نہیں ہوسکتا۔ جو لوگ منافقت اختیار کرنے اور جہاد سے پیچھے رہنے کے لیے اس طرح کے بہانے بناتے ہیں دنیا میں تو شاید ان کی سازشوں اور شرارتوں کا کوئی احاطہ نہ کرسکے لیکن جہنم میں ان پر پوری طرح قابو پاکر ٹھیک ٹھیک سزا دی جائے گی۔ مسائل : 1۔ منافقین ہر وقت دین اسلام سے راہ فرار ڈھونڈتے ہیں۔ 2۔ منافق سرور دو عالم (ﷺ) کی راہ میں رکاوٹیں ڈالا کرتے تھے۔ 3۔ منافق فطرتاً شرارتی ہوتا ہے۔ 4۔ منافق اسلام کی سربلندی کو پسند نہیں کرتا۔ 5۔ فتنہ کا معنی شرارت اور آزمائش ہوتا ہے۔ 6۔ اللہ تعالیٰ اپنے دین اور منصوبہ کو غالب کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن : فتنہ کیا ہے ؟ 1۔ مال ودولت اور دنیا کی زندگی انسان کے لیے فتنہ ہے۔ (طٰہ : 131) 2۔ اللہ تعالیٰ کے گھروں سے روکنا بہت بڑا فتنہ ہے۔ (البقرۃ:217) 3۔ کیا وہ خیال نہیں کرتے کہ انہیں ہر سال ایک مرتبہ یا دو مرتبہ آزمائش میں مبتلا کیا جاتا ہے۔ (التوبۃ :126) 4۔ جن کے دلوں میں کجی ہے وہ فتنہ پھیلانے کے لیے متشابہ آیات کی پیروی کرتے ہیں۔ (آل عمران :7) 5۔ تھور کا درخت جہنمیوں کے لیے آزمائش ہے۔ (الصٰفٰت :63) 6۔ تمہارے مال اور اولاد تمہارے لیے فتنہ ہے۔ (التغابن :15)