سورة التوبہ - آیت 43

عَفَا اللَّهُ عَنكَ لِمَ أَذِنتَ لَهُمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَتَعْلَمَ الْكَاذِبِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اللہ آپ کو معاف کرے، آپ نے انہیں (گھروں میں رہ جانے کی) اجازت (35) کیوں دے دی، تاکہ سچے لوگ آپ کے سامنے ظاہر ہوجاتے اور جھوٹوں کو بھی آپ جان جاتے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 43 سے 45) ربط کلام : منافقین کا کردار پیش کیا جا رہا ہے۔ منافق کی چکنی چپڑی باتوں میں آنے کے بجائے اسے اچھی طرح جاننا اور پرکھنا چاہیے۔ رسول رحمت (ﷺ) نے اپنے حلم اور بردباری کی بناء پر منافقین کو غزوۂ تبوک سے پیچھے رہنے کی اجازت دی لیکن وقت آچکا تھا کہ انھیں بالکل آشکار کردیا جائے اس لیے اللہ تعالیٰ نے نہایت شفقت و مہربانی کے لہجے کے ساتھ آپ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا اے نبی! اللہ آپ کو معاف کرے جس کا دوسرا مطلب ہے کہ اللہ نے آپ کو معاف کردیا ہے۔ منافقین کو اس وقت تک اجازت نہیں دینا چاہیے تھی جب تک کھرے اور کھوٹے، سچے اور جھوٹے کا فرق نمایاں نہ ہوجاتا۔ آپ کے اجازت دینے کی وجہ سے منافقین آپس میں پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ مسلمانوں کے نبی کو ہمارے عزائم کا علم نہیں ہے کیونکہ یہ دور اندیش اور زیادہ بصیرت رکھنے والا نہیں۔ منافق اس بات پر خوش ہیں کہ اس نے ہمیں خود ہی اجازت دے دی ہے ہمارے ذمہ اب کوئی گناہ نہیں بلکہ اس کی ذمہ داری رسول پر عائد ہوتی ہے۔ منافقین کی اس ہر زہ سرائی کو طشت ازبام کرتے ہوئے نبی اکرم (ﷺ) پر واضح کیا گیا ہے کہ آپ سے اجازت لینے والے وہ لوگ نہیں جو اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، اپنے مال اور جان کے ساتھ جہاد کرنے میں مخلص ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو خوب جانتا ہے جو حیلے بہانوں سے اجتناب کرنے والے ہیں۔ آپ سے جنگ میں عدم شرکت کی اجازت تو وہ لوگ مانگتے ہیں جن کا اللہ پر یقین نہیں اور ان کے دلوں میں اللہ اور آخرت کے بارے میں شک ہے اور وہ بےیقینی کی کشمکش میں مبتلا رہتے ہیں۔ 1۔ قارئین محترم ﴿ عَفَا اللّٰہُ عَنْکَ﴾ لام عرب میں تعظیم اور تکریم کا کلمہ ہے۔ جس کو کلام کی ابتدا میں ذکر کیا جاتا ہے اور جو شخص متکلم کے نزدیک محترم اور مکرم ہو اس کے متعلق کہا جاتا ہے اللہ آپ کو معاف فرمائے آپ نے میرے معاملہ میں کیا کردیا ہے یا اللہ آپ سے راضی ہو۔ آپ نے میری بات کا کیا جواب دیا ہے لہٰذا اس آیت میں نبی مکرم (ﷺ) سے فرمایا ہے ﴿ عَفَا اللّٰہُ عَنْکَ﴾اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ سے کوئی گناہ سرزد ہو اہو۔ 2۔ نبی اکرم (ﷺ) کا منافقین کو جہاد میں عدم شرکت کی اجازت دینا کیا آپ کی خطا تھی۔ اگر یہ خطا تھی تو ﴿ عَفَا اللّٰہُ عَنْکَ﴾سے اللہ نے اس کو معاف فرمادیا۔ خلاصہ یہ ہے کہ ” آپ نے ان کو اجازت کیوں دی“ فرمانا خطا کو مستلزم نہیں کرتا۔ لہٰذا اس قول کو ترک اولیٰ اور ترک اکمل پر محمول کیا جائے۔ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ پر صدق دل سے ایمان لانے والے نیکی کرنے میں دیر نہیں کرتے۔ 2۔ منافق لوگ نیکی کرنے میں تردد سے کام لیتے ہیں۔ 3۔ منافق مشکل کے وقت مسلمانوں کا ساتھ نہیں دیتا۔ تفسیر بالقرآن : کن کے دلوں میں مرض ہے : 1۔ منافقین کے دلوں میں بیماری ہے اللہ نے ان کی بیماری کو بڑھادیا۔ (البقرۃ: 10) 2۔ منافقین اور ان کے ساتھیوں کے دلوں میں بیماری ہے۔ (الاحزاب :12)