لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِيبًا وَسَفَرًا قَاصِدًا لَّاتَّبَعُوكَ وَلَٰكِن بَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشُّقَّةُ ۚ وَسَيَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَوِ اسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَكُمْ يُهْلِكُونَ أَنفُسَهُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ
اگر کوئی فوری فائدہ (34) ہوتا، اور سفر مختصر ہوتا تو وہ (منافقین) آپ کے پیچھے ہو لیتے، لیکن ان کے لیے مسافت لمبی اور کٹھن ہوگئی، اور وہ اللہ کی قسم کھا جائیں گے کہ اگر ہمارے لیے ممکن ہوتا تو تمہارے ساتھ ضرور نکلتے، یہ خود اپنی ہلاکت کا سامان کر رہے ہیں، اور اللہ جانتا ہے کہ وہ لوگ نرے جھوٹے ہیں
فہم القرآن : ربط کلام : مخلص مسلمانوں سے خطاب کے بعد منافقوں کا کردارواضح کیا جارہا ہے۔ مکہ معظمہ میں اعتقاد کے اعتبار سے دوہی قسم کے لوگ تھے ایک کافر اور دوسرے مخلص مسلمان، لیکن مدینہ طیبہ میں نبی اکرم (ﷺ) کو کفار کے ساتھ یہودیوں اور منافقین کے ساتھ بھی واسطہ پڑا ان میں خطرناک گروہ منافقین کا تھا جو مارِآستین تھے۔ کیونکہ یہ لوگ بظاہر کلمہ پڑھنے کی وجہ سے مسلمانوں جیسے کام کرتے اور ہرو قت مسلمانوں کے ساتھ جڑے رہتے تھے۔ ان کو پہچاننا اور ان سے کنارہ کش ہونا نہایت ہی مشکل کام تھا۔ یہ لوگ سوائے کڑی آزمائش کے پہچانے نہیں جاتے تھے۔ البتہ بدر، احد اور دیگر معرکوں کے وقت کافی حد تک نمایاں ہوچکے تھے لیکن وقت گزر جانے کے بعد یہ لوگ اپنی چرب لسانی اور جھوٹے حلف دے کر کچھ مسلمانوں کو اپنا ہمدرد بنا لیا کرتے تھے۔ غزوۂ تبوک کے ابتدائی ایام میں یہ لوگ شریک جنگ ہونے کے لیے مسلمانوں کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے۔ لیکن جوں ہی وقت قریب آتا گیا تو ان کے حیلے بہانے سامنے آنے لگے چنانچہ ان میں کچھ لوگ آپ (ﷺ) کی خدمت میں آکر اللہ کو گواہ بنا کر کہتے کہ ہماری فلاں فلاں مجبوری نہ ہوتی تو ہم آپ کے ساتھ ضرور شریک جنگ ہوتے۔ نبی اکرم (ﷺ) اپنے حلم و بردباری اور وسعت قلبی کی بناء پر انھیں اجازت عنایت فرماتے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے منافقین کی قلبی خیانت کا ذکر کرتے ہوئے آپ کو آگاہ فرمایا کہ یہ لوگ دل کے کھوٹے ہیں اور دین کی خاطر کوئی مشقت اٹھانے کے لیے تیار نہیں اس سے کسی آزمائش میں اپنے آپ کو ڈالنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس لیے یہ حقیقت کہ کسی صورت بھی تمھارے ساتھ شریک ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں جہاں تک ان کے حلف اٹھانے کا تعلق ہے اللہ اس پر گواہ ہے کہ یہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) أَنَّ النَّبِیَّ (ﷺ) قَالَ أَرْبَعٌ مَّنْ کُنَّ فیہِ کَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا وَمَنْ کَانَتْ فیہِ خَصْلَۃٌ مِّنْہُنَّ کَانَتْ فیہِ خَصْلَۃٌ مِّنْ النِّفَاقِ حَتّٰی یَدَعَہَا إِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ وَإِذَا حَدَّثَ کَذَبَ وَإِذَا عَاہَدَ غَدَرَ وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ) [ رواہ البخاری : کتاب الایمان، باب علامۃ المنافق] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا جس شخص میں چار خصلتیں ہوں گی وہ پکا منافق ہوگا اور جس میں ان میں سے کوئی ایک بھی ہو تو اس میں نفاق کی خصلت ہوگی یہاں تک کہ وہ اس کو چھوڑ دے۔ جب اسے امانت دی جائے وہ خیانت کرے اور جب بات کرے جھوٹ بولے اور جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے اور جب کسی سے الجھاؤ ہو تو گالی گلوچ پر اتر آئے۔“ مسائل : 1۔ دین کے لیے منافق کسی بڑی آزمائش کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ 2۔ منافق کا حلف بھی جھوٹا ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: ہلاک ہونے والے لوگ : 1۔ اللہ نے حق کی تکذیب کرنے والوں کو انکے گناہوں کی وجہ سے ہلاک کر کے دوسری قوم کو پیدا فرمایا۔ (الانعام :6) 2۔ آل فرعون نے اللہ کی آیات کی تکذیب کی اللہ نے ان کو ان کے گناہوں کیوجہ سے ہلاک کردیا۔ (الانفال :54) 3۔ بستی والوں نے جب ظلم کیا اللہ نے انھیں ہلاک کردیا۔ (الکہف :59) 4۔ قوم عاد نے جھٹلایا تو اللہ نے ان کو ہلاک کردیا۔ (الشعراء :139) 5۔ قوم تبع اور ان سے پہلے مجرموں کو اللہ نے ہلاک کردیا۔ (الدخان :37) 6۔ اللہ نے انبیاء کی طرف وحی کہ کہ ظالموں کو ضرور ہلاک کرے گا۔ (ابراہیم :13) 7۔ ہم کسی بستی والوں کو اس وقت تک ہلاک نہیں کرتے جب تک ان میں ڈرانے والے نہ بھیج دوں۔ (الشعراء : 208) 6۔ کیا وہ نہیں جانتے اللہ نے ان سے بھی بڑے مجرموں کو ہلاک کردیا۔ (القصص :78) 9۔ قوم عاد کو تند وتیز ہوا کے ساتھ ہلاک کردیا گیا۔ (الحاقۃ :6)