انفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالًا وَجَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ
(مسلمانو ! راہ جہاد میں نکلو (33) ہلکے ہو تب اور بھاری ہو تب، اور اپنے مال و دولت اور اپنی جانوں کے ذریعہ اللہ کی راہ میں جہاد کرو، اگر تمہارے پاس کچھ علم ہے تو (جان لو کہ) یہی تمہارے لیے بہتر ہے
فہم القرآن : ربط کلام : ہجرت کا واقعہ یاد دلوا کر اب پھر جہاد فی سبیل اللہ کا حکم دیا گیا ہے۔ ہجرت کے موقع پر نبی اکرم (ﷺ) اور ابو بکر صدیق (رض) کا نکلنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ چاہتے تو اپنے نبی کو اس سے پہلے بھی ہجرت کرنے کا حکم دے سکتے تھے لیکن اس نے اپنی قدرت کاملہ کا نمونہ دکھانے کے لیے یہ کیا کہ جب کفار متحد ہو کر انتہائی قدم اٹھا چکے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو بسلامت نکال کر یہ ثابت کر دکھایا کہ اللہ کے حکم کے مقابلہ میں کسی کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ اسی پس منظر کی روشنی میں مسلمانوں کو حکم دیا جا رہا ہے کہ اللہ کا حکم سمجھ کر تمھیں اس کے راستے میں اپنے مال اور جان کے ساتھ جہاد کرنے کے لیے نکل کھڑے ہونا چاہیے۔ بے شک تم دشمن کے مقابلہ میں طاقتور ہو یا کمزور، تھوڑے ہو یا زیادہ ہلکے ہو یا بوجھل جب اللہ تعالیٰ کا حکم آجائے تو اس کے راستے میں نکلنا ہی بہتر ہے بشرطیکہ تم اس کی حقیقت جان سکو۔ غزوۂ تبوک کے حالات سے واضح ہوتا ہے اگر دشمن حملہ آور ہونے کی کوشش کرے تو پھر اس کے ساتھ افرادی اور جنگی سازو سامان کا موازنہ کرنے کی بجائے اس کے مقابلہ میں نکلنا ہی بہتر اور فرض ہوجا تا ہے۔ ( عَنْ اَبِیْ مَسْعُوْدِنِ الْاَنْصَارِیِّ (رض) قَالَ جَآءَ رَجُلٌ بِنَاقَۃٍ مَخْطُوْمَۃٍ فَقَالَ ھٰذِہٖ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) لَکَ بِھَا یَوْمَ الْقِیاٰمَۃِ سَبْعُ مائَۃِ نَاقَۃٍ کُلُّھَا مَخْطُوْمَۃٌ۔) (مسلم) حضرت ابومسعود انصاری (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص لگام والی اونٹنی لا کر کہنے لگا یہ اللہ کے لیے ہے۔ نبی مکرم (ﷺ) نے فرمایا‘ قیامت کے دن تجھے اس کے بدلے سات سو اونٹنیاں ملیں گی اور وہ سب لگام والی ہونگی۔ (مسلم) مسائل : 1۔ مسلمانوں کو ہر حال میں اللہ کے راستے میں نکلنا چاہیے۔ 2۔ مال اور جان کے ساتھ جہاد کرنا لازم ہے۔