كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ عِندَ اللَّهِ وَعِندَ رَسُولِهِ إِلَّا الَّذِينَ عَاهَدتُّمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۖ فَمَا اسْتَقَامُوا لَكُمْ فَاسْتَقِيمُوا لَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ
مشرکوں کا اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کیسے کوئی عہد و پیمان (8) ہوسکتا ہے، ہاں، مگر جن کے ساتھ مسجد حرام کے قریب تمہارا معاہدہ ہوا، تھا، اگر وہ تمہارے ساتھ عہد پر قائم رہیں تو تم بھی ان کے ساتھ اس پر قائم رہو، بے شک اللہ تقوی والوں کو پسند کرتا ہے
فہم القرآن : ربط کلام : مشرکین سے کیے ہوئے معاہدات سے برأت کرنے کی وجوہات۔ اسلام اللہ تعالیٰ کا آخری اور مکمل دین ہے اسے اللہ تعالیٰ نے باقی ادیان پر غالب رہنے کے لیے نازل فرمایا ہے۔ اس کا غلبہ اس صورت میں ہی ہوسکتا ہے جب سچے مسلمان باہم متحد اور اپنے وسائل کو یکجا کرتے ہوئے جہاد کے لیے تیار رہیں گے۔ نبی (ﷺ) نے انھی بنیادوں پر صحابہ (رض) کی جماعت تیار فرمائی تھی جو جماعت اس قابل ہوئی کہ انھوں نے حدود حرم سے مشرکین کو نکال باہر کیا جب مشرکین کے دیس نکالے کا اعلان ہوا۔ تو انھوں نے اس پر مسلمانوں کے خلاف شدید پروپیگنڈہ کیا جس کا یہ جواب دیا گیا ہے کہ مشرکین کے عہد کی اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں کیونکہ مشرک کئی بار معاہدہ کرنے کے بعد توڑ چکے ہیں۔ سوائے ان لوگوں کے جنھوں نے مسجد حرام کے قریب رہتے ہوئے اپنے عہد کی پاسداری کی ان کے عہد کی مدت معینہ تک پاسداری کی جائے گی کیونکہ اللہ تعالیٰ عہد شکنی اور کسی پر زیادتی کرنے کو پسند نہیں کرتا۔ اسلام کی روشن خیالی اور وسعت طرفی کا عالم یہ ہے کہ وہ نہ صرف اپنوں کے ساتھ عہد شکنی اور زیادتی پسند نہیں کرتا بلکہ وہ بدترین دشمنوں اور مخالفوں کے ساتھ بھی ایفائے عہد اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے۔ بشرطیکہ وہ بھی اخلاقی قدروں کا احترام اور ایفائے عہد کا خیال رکھیں۔ آپ کی نبوت سے پہلے مکے میں چند لوگوں نے یہ عہد کیا کہ آج کے بعد کسی شخص کو کمزور، پردیسی اور بے سہارا پر ظلم نہیں کرنے دیا جائے گا۔ اس کے لیے انھوں نے اجتماعی حلف اٹھایا جسے حلف الفضول کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ نبوت کے بعد آپ فرمایا کرتے تھے کہ اگر آج بھی مجھے کوئی اس حلف اور عہد کے لیے بلائے تو میں سب سے پہلے اس پر عمل کرنے کے لیے تیار ہوں گا۔ یہی تعلیم آپ نے صحابہ (رض) اور ہر امتی کو دی ہے۔ (الرحیق المختوم) (عن حُذَیْفَۃ بن الْیَمَانِ (رض) قَالَ مَا مَنَعَنِی أَنْ أَشْہَدَ بَدْرًا إِلَّا أَنِّی خَرَجْتُ أَنَا وَأَبِی حُسَیْلٌ قَالَ فَأَخَذَنَا کُفَّارُ قُرَیْشٍ قَالُوا إِنَّکُمْ تُرِیدُونَ مُحَمَّدًا فَقُلْنَا مَا نُرِیدُہُ مَا نُرِیدُ إِلَّا الْمَدِینَۃَ فَأَخَذُوا مِنَّا عَہْدَ اللّٰہِ وَمِیثَاقَہُ لَنَنْصَرِفَنَّ إِلَی الْمَدِینَۃِ وَلَا نُقَاتِلُ مَعَہُ فَأَتَیْنَا رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) فَأَخْبَرْنَاہُ الْخَبَرَ فَقَالَ انْصَرِفَا نَفِی لَہُمْ بِعَہْدِہِمْ وَنَسْتَعِین اللّٰہَ عَلَیْہِمْ) [ رواہ مسلم : کتاب الجہاد والسیر، باب الوفاء بالعہد] ” حضرت حذیفہ بن یمان (رض) بیان کرتے ہیں مجھے اور ابو حسیل کو غزوۂ بدر میں شرکت کرنے سے کسی نے نہیں روکا تھا۔ ہمیں قریش مکہ نے پکڑ لیا انھوں نے پوچھا کہ بلاشبہ تم محمد (ﷺ) کی مدد کرنے کا ارادہ رکھتے ہو ؟ ہم نے کہا نہیں ہمارا ان کی مدد کرنے کا کوئی ارادہ نہیں، ہم تو مدینہ کی طرف جا رہے ہیں۔ انھوں نے ہم سے اللہ کے نام پر حلف لیا ہم نے اس کی توثیق کردی کہ ہم مدینہ کی طرف ضرور جائیں گے مگر محمد (ﷺ) کے ساتھ مل کر قتال نہیں کریں گے۔ ہم رسول مکرم (ﷺ) کے پاس آئے ہم نے آپ کو راستہ میں پیش آنے والے واقعہ کی خبر دی۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا دونوں چلے جاؤ ہم اس عہد کی پاسداری کریں گے اور کفار کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں گے۔“ مسائل : 1۔ کفار اور مشرکین کی عہد شکنی کے مقابلے میں عہد توڑنا جائز ہے۔ 2۔ اگر کوئی عہد کی پاسداری کرے تو مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ بھی عہد کو نبھائیں۔ 3۔ اللہ تعالیٰ پرہیزگار اور عہد کی پاسداری کرنے والے کو پسند کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ کن لوگوں سے محبت کرتا ہے : 1۔ جو اللہ سے ڈریں ان سے اللہ محبت کرتا ہے۔ (آل عمران :76) 2۔ صبر کرنے والوں سے اللہ محبت کرتا ہے۔ (آل عمران :146) 3۔ نیکی کرنے والوں سے اللہ محبت کرتا ہے۔ (آل عمران :148) 4۔ توکل کرنے والوں سے اللہ محبت کرتا ہے۔ (آل عمران :159) 5۔ انصاف کرنے والوں سے اللہ محبت کرتا ہے۔ (الممتحنۃ:8) 6۔ صاف ستھرا رہنے والوں سے اللہ محبت کرتا ہے۔ (التوبۃ:108)