وَأَذَانٌ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ أَنَّ اللَّهَ بَرِيءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ ۙ وَرَسُولُهُ ۚ فَإِن تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ ۗ وَبَشِّرِ الَّذِينَ كَفَرُوا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ
اور اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے لوگوں کے سامنے حج کے بڑے دن میں اعلان (3) کیا جاتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کا مشرکوں سے اب کوئی تعلق نہیں رہا، پس اگر تم لوگ توبہ کرلوگے تو تمہارے لیے بہتر رہے گا، اور اگر تم نے اسلام سے روگردانی کی تو جان لو کہ تم اللہ کو کسی حال میں عاجز نہیں بنا سکتے ہو، اور کافروں کو دردناک عذاب کی خوشخبری دے دیجئے
فہم القرآن : ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ : مشرکین کی سازشوں اور بد عہدیوں کی ٹھیک ٹھیک سزا تو یہ تھی کہ انھیں فوری طور پر حدود حرم سے نکال باہر کیا جاتا لیکن اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت اور اس کے رسول کی شفقت کا نتیجہ تھا کہ ان کے لیے یہ اعلان کیا گیا کہ چار مہینے تک تم کھلے عام حدود حرم کے اندر رہتے ہوئے اپنے کام کاج اور معاملات کو سمیٹ کر نکل جاؤ اور ساتھ ہی انھیں یہ انتباہ فرمایا کہ وہ دن گزر گئے کہ جب تم سازشیں کیا کرتے تھے اب ایسا کرو گے تو انتہائی ذلیل کردیے جاؤ گے اور تم کسی طور پر بھی اللہ تعالیٰ کو بے بس نہیں کرسکتے۔ کفار اور مشرکین کی حرم کی تولیت سے محرومی اور ہمیشہ کے لیے اپنے گھروں سے بےدخل ہونا کچھ کم ذلت نہ تھی مگر اس کے باوجود انھیں متنبہ کردیا گیا کہ اگر تم باز نہ آئے تو دنیا میں ذلیل اور آخرت میں اذیت ناک عذاب میں مبتلا کیے جاؤ گے البتہ تم ایمان لے آؤ تو تمھارے لیے دنیا میں خیر ہی خیر اور آخرت میں بہترین جزا ہوگی۔ عام لوگ عرفہ کے دن جمعہ ہو تو اسے حج اکبر کہتے ہیں حالانکہ اس کی کوئی شرعی دلیل نہیں۔ حج اکبر کی اصطلاح عمرہ کے مقابلہ میں ہے کیونکہ عرب عمرہ کو حج اصغر اور حج کو حج اکبر کہا کرتے تھے۔ حدود حرم سے غیر مسلموں کو نکالنا اس لیے ضروری تھا تاکہ امت مسلمہ کا مرکز روحانی نجاست اور سیاسی سازشوں سے ہمیشہ کے لیے پاک ہوجائے۔ وفات سے پہلے آپ (ﷺ) نے یہودیوں کو ہمیشہ کے لیے جزیرہ نما عرب سے نکل جانے کا حکم دیا کیونکہ اس قوم نے بھی شرارتوں اور سازشوں کی حد کردی تھی۔ اس لیے آپ نے حکم صادر فرمایا کہ انھیں ہمیشہ کے لیے سر زمین حجاز سے نکال باہر کیا جائے۔ (عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ بَیْنَا نَحْنُ فِی الْمَسْجِد خَرَجَ النَّبِیُّ فَقَالَ انْطَلِقُوْا اِلٰی یَہُوْدَ فَخَرَجْنَا مَعَہٗ حَتّٰی جِئْنَا بَیْتَ الْمِدْرَاسِ فَقَام النَّبِیُّ فَقَالَ یَا مَعْشَرَ یَہُوْدَ اَسْلِمُوْا تَسلَمُوْا اِعْلَمُوْا اَنَّ الْاَرْضَ لِلّٰہِ وَلِرَسُوْلِہٖ وَاِنِّیْ اُرِیْدُ اَنْ اُجْلِیَکُمْ مِنْ ھٰذِہٖ الْاَرْضِ فَمَنْ وَّجَدَ مِنْکُمْ بِمَالِہٖ شَیْئًا فَلْیَبِعْہُ) [ رواہ البخاری : کتاب الجزیۃ، باب اخراج الیہود من جزیرۃ العرب ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں ہم مسجد میں موجود تھے کہ نبی اکرم (ﷺ) تشریف لائے۔ آپ نے فرمایا یہودیوں کی جانب چلو۔ ہم آپ (ﷺ) کے ساتھ چلے اور ان کے مدرسہ میں پہنچے۔ نبی مکرم (ﷺ) نے کھڑے ہو کر فرمایا اے یہود مسلمان ہوجاؤ تم محفوظ رہو گے اور یقین کرلو یہ زمین اللہ اور اس کے رسول کے قبضہ میں ہے میں تمہیں اس سرزمین سے جلا وطن کرنا چاہتا ہوں۔ تم میں سے جس شخص کو اس کے مال کے بدلے کچھ دستیاب ہوتا ہے تو وہ اسے فروخت کر دے۔“ مسائل : 1۔ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کا مشرکین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ 2۔ عمرہ کے مقابلے میں حج کو حج اکبر کہا جاتا ہے۔ 3۔ ایمان لانا اور اس کے تقاضے پورے کرنے والا دنیا اور آخرت میں بہترین اجر پائے گا۔ 4۔ اللہ تعالیٰ مشرکوں اور کافروں کو بالآخر ذلیل کرے گا۔ تفسیر بالقرآن : کفار کی سزا : 1۔ بے شک وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیات کی تکفیر کی ان کے لیے شدید عذاب ہے۔ ( آل عمران :4) 2۔ کفار کے لیے دردناک عذاب ہے اور ان کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ (آل عمران :91) 3۔ ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں بہت بڑا عذاب ہوگا۔ (البقرۃ:114) 4۔ وہ لوگ جو ہماری آیات کی تکذیب کرتے ہیں وہ عذاب میں مبتلا ہونگے۔ (المائدۃ :73) 5۔ کفار کے چمڑے جب جل جائیں گے تو ہم انہیں عذاب کا مزہ چکھانے کے لیے انکے چمڑے تبدیل کردیں گے۔ (النساء :56)