وَالَّذِينَ كَفَرُوا بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ إِلَّا تَفْعَلُوهُ تَكُن فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ
اور جن لوگوں نے کفر کیا ان کے بعض، بعض کے دوست (63) ہیں، اگر تم ایسا نہیں کرو گے (64) (یعنی مسلمانوں سے دوستی اور کافروں سے ترک تعلقات) تو زمین میں فتنہ اور بہت بڑا فساد برپا ہوجائے گا
فہم القرآن : ربط کلام : مسلمانوں کو ایک دوسرے کا دوست اور وارث قرار دینے کے بعد کفار کے بارے میں فیصلے کا اعلان۔ اس سے پہلے مسلمانوں کی آپس میں اخوت اور باہمی وارث ہونے کے بارے میں ارشاد تھا۔ اب کفار کے بارے میں فیصلہ سنایا جاتا ہے کہ کافر ایک دوسرے کے خیر خواہ، دوست اور وارث ہیں۔ اسی بنیاد پر پوری دنیا کے کفار کو ایک ملت قرار دیا گیا ہے۔ یہی وہ بنیاد ہے جس کی بنا پر دو قومی نظریہ کی اصطلاح معرض وجود میں آئی اور اسی سے ثابت ہوتا ہے کہ بنیادی طور پر کسی قوم کا تشخص علاقائی ٗلسانی اور جغرافیائی بنیاد پر نہیں ہوتا بلکہ حقیقی تشخص نظریہ کی بنیاد پر ہوتا ہے اور ہونا چاہیے۔ اس لیے اسلام نے کفار اور مشرکین سے قلبی دوستی، رشتہ داری اور ایک دوسرے کی موروثیت کو حرام قرار دیا ہے۔ اگر مسلمان معاہد قوم کے ساتھ عہد شکنی اور کفار کے ساتھ قلبی دوستی اور رشتہ داری قائم کریں گے تو دنیا میں دنگا فساد پیدا ہوگا۔ کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی، دین میں بگاڑ، مسلمانوں کے وقار میں کمی اور ایک دوسرے کے معاملات میں بلا سبب مداخلت کرنے سے دنیا میں مسلسل جنگ وجدال جاری رہے گا۔ جو کسی کے لیے بھی بہتر نہیں ہے۔ یہاں تک کہ دارالکفر میں مسلمانوں کی مدد کا معاملہ ہے۔ اس کی کئی صورتیں ہیں اگر وہ منظم ہو کر اپنے حقوق منوائیں گے توجلد انھیں تحفظ مل جائے گا کیونکہ ہر ملک کے دستور میں اقلیتوں کے حقوق تحفظ کی ضمانت دی جاتی ہے بالخصوص جس کافر ملک کے ساتھ مسلمان حکومت کا معاہدہ ہو پہلے زمانے میں ایسی گارنٹی نہیں ہوتی تھی۔ تفسیر بالقرآن : کافر ایک دوسرے کے دوست ہوتے ہیں : 1۔ کافر ایک دوسرے کے دوست ہوتے ہیں۔ (المائدۃ:51) 2۔ اے ایمان والو کفار کو اپنا دوست نہ بناؤ۔ (التوبۃ:23) 3۔ جو بھی کفار کو اپنا دوست بنائے گا وہ ظالم ہوگا۔ (الممتحنۃ:9) 4۔ کفار کے شیطان دوست ہیں۔ (البقرۃ:257) 5۔ ظالم ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ (الجاثیۃ :19)