سورة الانفال - آیت 49

إِذْ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ غَرَّ هَٰؤُلَاءِ دِينُهُمْ ۗ وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَإِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

جب منافقین اور ان لوگوں نے جن کے دلوں میں کفر کی بیماری تھی، کہا کہ ان (مسلمانوں) کو ان کے دین نے دھوکہ (41) میں ڈال دیا ہے، اور جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے تو بے شک اللہ بڑا زبردست، بڑی حکمتوں والا ہے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : بدر کے موقع پر منافقین کا رد عمل۔ منافق کا لفظ ” نفق“ سے نکلا ہے جس کا معنی ہے کہ چوہے کی ایسی بل جس کے دو منہ ہوں۔ اگر ایک منہ بند کردیا جائے تو چوہا دوسری طرف سے نکل جائے جب تک بل کے دونوں منہ بند نہ کیے جائیں چوہا قابو نہیں آسکتا۔ منافق کو اس لیے منافق کہتے ہیں کہ اگر اسے مسلمانوں کی طرف سے فائدہ ہو تو وہ اسلام اسلام پکارتا ہے اگر دین کے حوالے سے کسی آزمائش سے واسطہ پڑے تو وہ کافروں کا ہمدرد بن کر ان سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے۔ انسانی جسم دو چیزوں سے مکمل ہوا ہے روح اور جسم، روح آفاقی ہے اور جسم زمین سے بنا ہے۔ جسم کی خوراک کا تعلق زمین سے ہے، روح کا تعلق اخلاقیات اور ایمانیات سے ہے۔ جس طرح جسم کو بیماریاں لاحق ہوتی ہیں۔ اسی طرح روح کو بھی بیماریاں لگتی ہیں۔ روح کی بیماریوں میں نفاق ایک بد ترین بیماری ہے۔ جو روحانی اور اخلاقی مرض ہے۔ جس کی وجہ سے انسان کا کردار دوغلا ہوجاتا ہے اور وہ مفاد کا بندہ ہونے کی وجہ سے ہمیشہ طاقتور دھڑے کا ساتھ دیتا ہے۔ یہی کردار بدر کے موقع پر منافقوں کا تھا۔ جب انھوں نے مسلمانوں کو بدر کی طرف جاتے ہوئے دیکھا تو آپس میں کہنے لگے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں ان کے دین نے دھوکے میں ڈال دیا ہے یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ کی مدد ہمارے شامل حال ہوگی۔ کیونکہ ہم مسلمان ہیں۔ اس کے ساتھ منافق سمجھتے تھے کہ مسلمان جان بوجھ کر موت کے منہ میں جا رہے ہیں اور ان کا واپس آنا مشکل ہے لیکن انھیں کیا خبر تھی کہ جو اللہ تعالیٰ پر توکل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے مشکلات میں سرخرو فرماتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ غالب، حکمت والا ہے۔ یہ بات پہلے بھی عرض کی جا چکی ہے کہ ہر آیت کے اختتامی الفاظ اس کے مفہوم کا خلاصہ ہوتے ہیں۔ اس معرکہ میں اللہ تعالیٰ کی حکمت یہ تھی کہ حق و باطل میں امتیاز ہوجائے۔ اس لیے بدر کا معرکہ ناگزیر ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں ” العزیز“ صفت اس لیے لائی ہے تاکہ منافقوں کو معلوم ہوجائے کہ غلبہ اور کامیابی حربی طاقت اور افرادی قوت پر منحصر نہیں مدد تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوا کرتی ہے۔ (قَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ (رض) إِنَّ رَسُول اللَّہِ () کَانَ یَدْعُو یَقُول اللَّہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنَ الشِّقَاقِ وَالنِّفَاقِ وَسُوءِ الأَخْلاَقِ )[ رواہ ابوداوٗد : باب فِی الاِسْتِعَاذَۃِ] ” حضرت ابو ہریرۃ (رض) بیان کرتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ (ﷺ) دعا فرمایا کرتے تھے۔ اے اللہ میں تیری پناہ میں آتا ہوں بدبختی، نفاق اور برے اخلاق سے۔“ مسائل : 1۔ منافقت ایک روحانی بیماری ہے جس سے بچنا چاہیے۔ 2۔ منافق ہمیشہ اپنے مفاد کو سامنے رکھتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے والا حقیقی کامیابی حاصل کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنے والی جماعت : 1۔ اللہ پر بھروسہ کرنے والوں کو اسی پر بھروسا کرنا چاہیے۔ (یوسف :67) 2۔ مومن اللہ پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔ (المائدۃ:11) 3۔ مومنوں کو اللہ پر ہی بھروسہ کرنا چاہیے۔ (التوبۃ:51) 4۔ جب آپ (ﷺ) کسی کام کا عز م کرلیں تو اللہ پر بھروسہ کریں۔ (آل عمران :159) 5۔ آپ (ﷺ) ان سے اعراض کریں پھر اللہ پربھروسہ کریں کیوں کہ اللہ ہی نگہبان ہے۔ (النساء :81) 6۔ سب کاموں کا انجام اللہ کی جانب ہے آپ (ﷺ) اسی کی عبادت کریں اور اسی پربھروسہ کریں۔ (ھود :123) 7۔ اگر تم مومن ہو تو اللہ پر ہی بھروسہ کرو۔ (المائدۃ:23) 8۔ صابر لوگ اللہ پربھروسہ کرنے والے ہیں۔ (العنکبوت :59)